History Fact Founder – تاریخ کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ایک منفرد ویب سائٹ دنیا کی تاریخ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا، کیوں ہوا، اور اس کے اثرات آج تک کیسے قائم ہیں۔ History Fact Founder ایسی ہی ایک منفرد اردو ویب سائٹ ہے جو تاریخ کے بھولے بسرے واقعات، حیران کن حقائق، عظیم شخصیات، جنگوں، سلطنتوں، ایجادات، اور تاریخی ثقافتوں کو دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ نہ صرف تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ تحقیق شدہ، مستند اور قابلِ اعتبار حوالوں کے
Saturday, 2 August 2025
انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا
ساغر صدیقی
1928 انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا. گھر میں ہر طرف افلاس کا دور دورہ تھا۔ محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ پڑھا. ان سے ہی پڑھا. ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور کنگھیاں بنانا سیکھا اور کام شروع کیا. لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔
کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے گیتوں کی فرمائش کی اور کامیابی ہوئی۔
1952 کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ اس طرح وہ نشے کے عادی ہو گئے.
لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔
اس کا پہلا مجموعہ کلام ایک ناشر نے ساغر کے اشعار سن سن کر جمع کرنے کے بعد چھپوایا تھا جس کا پہلا ایڈیشن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔۔۔لیکن اس ناشر نے ساری آمدن اپنی جیب میں ڈال لی. کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے او ر ایک بےخود ی و بےگانگی کی قیمت اداکرنے میں بے توقیرہوئیں.
ان کی تصانیف میں ’زہر آرزو‘،
’غم بہار‘، شب آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوح جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘۔ ’’کلیات ساغر ‘‘ شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا اور ان کی وفات 19 جولائی 1974ء کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔ انھیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا.
بزم کونین سجانے کے لئے آپ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ آئے
——
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
——
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
——
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
——
یاد رکھنا ہماری تُربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
——
ہائے یہ بیگانگی ، اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں
——
کہتے ہیں تیری زلفِ پریشاں کو زندگی
اے دوست ! زندگی کی تمنا بُری نہیں
——
ایک وعدہ ہے کسی کا ، جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
——
ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے
مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے
——
میں بھی جنت سے نکالا ہوا اک بُت ہی تو ہوں
ذوقِ تخلیق ! تجھے کیسے ستم آتے ہیں
——
یوں چٹکتے ہیں شاخ پر غنچے
جیسے اُن کے سلام آتے ہیں
——
ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
——
ساغرؔ کسی کی یاد میں جب اشکبار تھے
کتنے حسین دن تھے جہانِ خواب میں
——
میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
——
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
——
روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
——
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
——
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
——
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
——
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
——
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
——
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام
(سبق آموز کہانی – از قلم عثمان بشیر)
سفید کوٹ، اسٹیتھو سکوپ، بہترین اسپتال میں اچھی نوکری، اپنی گاڑی، اپنا گھر، اور ہر جمعرات کو سوشل ورک۔
لوگ اسے دیکھتے اور کہتے:
"ماشاءاللہ! کتنی مکمل عورت ہے… ہر لڑکی کو اس جیسا بننا چاہیے!"
اور وہ؟
وہ مسکراتی تھی۔
ہلکی آواز میں دعائیں دیتی تھی۔
مگر… صرف وہ جانتی تھی کہ اندر سے کچھ نہیں بچا۔
روز صبح خود کو آئینے میں دیکھتی، اور دل کہتا:
"تم سب کو بچا رہی ہو… مگر تمہیں کون بچائے گا؟"
کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ سونے سے پہلے دل بھاری ہوتا ہے،
کبھی کسی کے سامنے یہ نہیں کہا کہ
"ساری زندگی دوسروں کو سہارا دیتے دیتے، خود تنہا ہو گئی ہوں۔"
نماز؟ کبھی کبھی۔
قرآن؟ برسوں سے کھولا نہیں۔
دل؟ ہمیشہ خالی۔
روح؟ جیسے کوئی صدیوں سے صحرا میں بھٹک رہا ہو۔
پھر ایک دن…
OPD میں ایک بوڑھی مریضہ آئی۔
چہرہ جھریوں سے بھرا، آنکھوں میں نور، اور لبوں پر تسبیح کے الفاظ۔
علاج کے بعد وہ ڈاکٹر سے بولی:
"بیٹا! تمہاری نبض تو ٹھیک ہے… مگر تمہاری روح رو رہی ہے۔"
ڈاکٹر چونکی۔
"آپ نے کیا کہا…؟"
بوڑھی مسکرا کر بولی:
"نماز چھوڑ دو… قرآن سے دور رہو… اور پھر دنیا کے سب سہارے لے لو — خالی تو رہو گی ہی۔"
وہ دن، ایک شعلہ بن گیا۔
اس نے سجدہ کیا — برسوں بعد، مگر دل سے۔
آنکھوں سے آنسو بہے جیسے صدیاں نکل رہی ہوں۔
قرآن کھولا — اور پہلی آیت دل پر یوں اتری جیسے کسی نے سینے میں چراغ رکھ دیا ہو:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
"خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
اور وہ عورت…
اب بھی وہی ڈاکٹر ہے۔
مگر فرق یہ ہے:
پہلے وہ لوگوں کا جسم بچاتی تھی، اب دل بھی سنبھالتی ہے۔
پہلے وہ سٹیپتھو سکوپ سے دل سنتی تھی،
اب وہ ہر مریض سے پہلے "دل کی دعا" مانگتی ہے۔
اب لوگ کہتے ہیں:
"ماشاءاللہ! وہ صرف ڈاکٹر نہیں… وہ دلوں کو جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔"
🌿 سبق:
دنیا کی ہر کامیابی، ہر مقام، ہر عہدہ —
تمہیں مکمل تبھی کرے گا… جب تم رب سے جُڑے ہو گے۔
تم جتنی بھی بڑی ڈاکٹر، وکیل، ماہر، CEO، یا ماں بن جاؤ —
اگر سجدے چھوٹ گئے،
اگر دل قرآن سے دور ہو گیا،
تو سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم خالی ہو گے۔
اور جب تم اللہ سے جُڑ جاؤ…
تو پھر چاہے تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو — تم مکمل ہو جاتے ہو۔
Thursday, 31 July 2025
*والدین کے لیے ایک سبق آموز واقعہ __!!* ✍🏻
*والدین کے لیے ایک سبق آموز واقعہ __!!* ✍🏻
خلفاء بنو عباس میں سے ایک خلیفہ نے اپنے زمانہ کے بعض علماء سے یہ خواہش کی کہ آپ کچھ ایسے اہم اور موثر واقعات لکھ بھیجئے جنہیں آپ نے خود دیکھا ہو یا سنا یا پڑھا ہو۔ اس خواہش کی تکمیل میں ایک عمر رسیدہ عالم نے لکھا کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو دیکھا ہے۔ جب یہ مرض موت میں مبتلا تھے تو کسی نے کہا امیر المومنین آپ نے اس مال کو اپنے بیٹوں سے دور رکھا ہے، یہ فقیر و بے نوا ہیں، کچھ تو ان کے لیے چھوڑنا چاہئے تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹوں کو بلایا جن کی تعداد دس تھی، جب یہ حاضر ہوئےتو رونے لگے پھر مخاطب ہو کر فرمایا میرے بیٹو! جو تمہارا حق تھا وہ میں نے تم کو پورا پورا دے دیا ہے کسی کو محروم نہیں رکھا اور لوگوں کا مال تم کو دے نہیں سکتا، تم میں سے ہر ایک کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ صالح ہوگا تو اللہ تعالی صالح بندوں کا والی اور مددگار ہے، یا غیر صالح ہوگا اور غیر صالح کے لیے میں کچھ چھوڑنا نہیں چاہتا کہ وہ اس مال کے ذریعہ اللہ تعالی کی معصیت میں مبتلا ہوگا۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا قوموا عني (بس تم سب جاو اتنا ہی کہنا چاہتا تھا)۔
عالم نے لکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بڑے فرماں روا اور ایک وسیع مملکت کے مالک تھے، اس کے با وجود ان کی اولاد کو ان کے ترکہ میں سے بیس بیس درہم سے بھی کم ملے لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ ان کے یہ لڑکے سو سو گھوڑے فی سبیل اللہ دیتے تھے تاکہ مجاہدین اسلام ان پر سوار ہوکر جہاد کریں۔ عالم نے اس کے بعد لکھا کہ میں نے اس کے بر عکس بعض ایسے فرماں رواوں کو بھی دیکھا ہے کہ جنہوں نے اپنا ترکہ اتنا چھوڑا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد جب لڑکوں نے باہم تقسیم کیا تو ہر ایک حصہ میں چھ چھ کروڑ اشرفیاں آئی تھیں لیکن میں نے ان لڑکوں میں سے بعض کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لوگوں کے سامنے بھیک مانگا کرتے تھے۔
یہ ایک نہایت سبق آموز واقعہ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ والدین کے لیے اولاد کے سلسلہ میں نہایت مالدار یا غیر مالدار بنانے کا اہم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں صالح بنایا جائے، صالح بندوں کی امداد اور حمایت کا وعدہ خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے لڑکوں کو والد کے ترکہ (میراث) سے صرف بیس بیس درہم ہاتھ لگے تھے لیکن چونکہ لڑکے صالح تھے، اللہ نے ان کو بہت کچھ عطا فرمایا اور وہ بھی اللہ کے راستہ میں جی کھول کر دینے لگے۔ دوسری طرف بعض خلفاء عباسیہ چھ چھ کروڑ اشرفیاں اپنے لڑکوں کے لیے ترکہ میں چھوڑ گئے تھے لیکن بد عملی کی پاداش میں انہیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھانی پڑی۔
پس کتنے والدین ہیں جو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور ان کے سامنے اہم مسئلہ اولاد کو صالح بنانے کا ہو اور اس سلسلہ میں وہ سارے جتن کرتے ہوں جو انہیں کرنے چاہئیں۔
🪀🪀 *واٹس ایپ کے فضول اور فحش چینلز سے اپنے بچوں اور خاندان کو ان فحش اور فضول چینلز سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔*
آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر طرف سوشل میڈیا کا شور ہے۔ واٹس ایپ پر ہزاروں چینلز بن چکے ہیں، مگر افسوس کہ ان میں سے کئی چینلز گندگی، فحاشی، غیر اخلاقی مواد اور بے فائدہ باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔
یہ چینلز:
وقت کا ضیاع ہیں؛ جو گھنٹوں انسان کو مصروف رکھ کر زندگی کے قیمتی لمحات چھین لیتے ہیں۔
ایمان و اخلاق کو کھوکھلا کرتے ہیں؛ فحش مواد دل میں برائی کے بیج بوتا ہے اور نیک اعمال سے دور کر دیتا ہے۔
دماغ کو آلودہ کرتے ہیں؛ بے ہودہ تصاویر اور ویڈیوز ذہن کو بگاڑ دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔"
(سورہ بنی اسرائیل: 32)
کیا ہمیں اپنی آنکھوں اور وقت کو ان فضول چینلز پر ضائع کرنا زیب دیتا ہے؟
ایسے چینلز کو فوراً چھوڑ دیں۔
اپنے فون میں صرف وہی چینلز رکھیں جو دینی، تعلیمی یا فائدہ مند معلومات فراہم کریں۔
*اپنے بچوں اور خاندان کو ان فحش اور فضول چینلز سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔*
ایک قیمتی جان، ایک کڑوا سبق — ریبیز کی خاموشی، موت کی آواز
🕊️ ایک قیمتی جان، ایک کڑوا سبق — ریبیز کی خاموشی، موت کی آواز 🕊️
محمد ارمان ولد غلام محمد
عمر: 16 سال
رہائشی: کوٹ احترام، بہڑوال کلاں
گزشتہ تین روز قبل 27 جولائی 2025 کو ریبیز (کتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری) کا شکار ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
> اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
💔 اللہ تعالیٰ محمد ارمان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور والدین و خاندان کو صبر جمیل دے، آمین۔
---
🦠 ریبیز کا پس منظر:
ارمان کو آٹھ ماہ قبل ایک کتے نے کاٹا تھا۔
اس وقت معلومات کی کمی اور احتیاط نہ کرنے کے باعث
Anti Rabies Vaccine نہ لگوائی جا سکی۔
تقریباً 15 دن قبل ارمان کے اندر ریبیز کی خطرناک علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں —
جیسے:
* بے چینی
* پانی، روشنی یا ہوا سے خوف
* ذہنی کیفیت میں تبدیلی
فوری طور پر لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔
> ❗ ریبیز ایسی بیماری ہے جس میں علامات ظاہر ہونے کے بعد جدید میڈیکل سائنس بھی بے بس ہو جاتی ہے — نہ دوا کام آتی ہے، نہ بڑے سے بڑا ڈاکٹر، نہ ہی پیسہ یا تعلق۔
اس بیماری سے صرف وقت پر ویکسین اور احتیاط ہی جان بچا سکتی ہے۔
---
🔍 ریبیز کیا ہے؟
ریبیز ایک مہلک وائرل بیماری ہے جو جانوروں کے لعاب (تھوک) سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، خصوصاً اگر کوئی:
🔸 کتا
🔸 بلی
🔸 بندر
🔸 چمگادڑ
🔸 یا دیگر جنگلی جانور
کاٹ لے یا خراش دے۔
یہ وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے، اور علامات ظاہر ہونے کے بعد تقریباً ہمیشہ موت واقع ہو جاتی ہے۔
---
⚠️ ابتدائی علامات:
* بخار، بے چینی، کمزوری
* پانی، ہوا یا روشنی سے خوف (Hydrophobia, Aerophobia, Photophobia)
* ذہنی انتشار، بھاگنے یا چیخنے کی کیفیت
* جسم میں جھٹکے، فالج
* آخرکار: کوما اور موت
---
💉 زندگی بچانے والے اقدامات (اگر جانور کاٹ لے):
1️⃣ زخم کو فوراً صابن اور پانی سے کم از کم 15 منٹ دھونا
2️⃣ 24 گھنٹے کے اندر پہلا ویکسین ٹیکہ لگوانا
3️⃣ مکمل ویکسین کورس (5 ٹیکے مقررہ دنوں پر) مکمل کرنا
4️⃣ اگر زخم گہرا ہو یا چہرے/گردن کے قریب ہو تو RIG (Rabies Immunoglobulin) بھی لازمی لگوانا
> ❗ صرف "وقت پر ویکسین" ہی زندگی بچا سکتی ہے۔
---
🕯️ ارمان کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ لاعلمی اور تاخیر صرف افسوس نہیں، جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
📢 اپنی محبت، انسانیت اور ذمہ داری کا ثبوت دیں — اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، تاکہ ارمان کی قربانی رائیگاں نہ جائے، اور کسی اور کی زندگی بچ سکے
"کیا ہر وقت صفائی، perfection اور سب کچھ control کرنے کی عادت… بیماری ہے؟"
ایک ایسا سوال جو بظاہر معمولی لگتا ہے…
مگر حقیقت میں ہزاروں پاکستانی خواتین کی اندرونی تھکن کی گواہی ہے۔
✍ تحریر: عثمان بشیر | آئیڈیل لائف کاؤنسلنگ
وہ عورت جو صبح سے شام تک ایک ایک چیز اپنی جگہ پر رکھتی ہے، ہر کونے کو چمکاتی ہے، ہر کام خود کرتی ہے، بچوں کو وقت پر نہلانا، شوہر کے کپڑے وقت پر استری کرنا، برتن، قالین، کپڑے، چھتیں، دیواریں… ہر چیز اُس کے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔
اور اگر کوئی چیز اُس کے حساب سے نہ ہو… تو اُس کے اندر ایک عجیب سی بےچینی، جھنجھلاہٹ، اور گھٹن پیدا ہو جاتی ہے۔
❓یہ perfection ہے… یا پھر کچھ اور؟
یہ وہ مقام ہے جہاں Productivity اور OCD (Obsessive Control Disorder) کا فرق دھندلا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسی عورت بظاہر ایک مثالی ہاؤس وائف ہوتی ہے… مگر اندر سے ٹوٹی ہوئی، تھکی ہوئی، اور بے سکون۔
🔍 اصل مسئلہ کیا ہے؟
یہ عورت صفائی نہیں کر رہی… وہ اپنے اندر کے خوف کو صاف کر رہی ہے۔
وہ ہر چیز کو control میں رکھ کر دراصل اپنے دل کی بے چینی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
"اگر ہر چیز perfect نہ ہوئی تو شوہر ناراض ہو جائے گا"
"اگر سب کچھ نہ سنبھالا تو مجھے ناکام سمجھا جائے گا"
"اگر تھوڑا سا بھی relax کیا تو مجھے بےکار عورت کہا جائے گا"
یہ سوچیں آہستہ آہستہ عورت کو anxious perfectionist بنا دیتی ہیں جو جسم سے کام کرتی ہے، مگر روح سے مسلسل تھک رہی ہوتی ہے۔
🧠 نفسیاتی حقیقت:
ایسی عورت کا دماغ "fight or flight mode" میں رہتا ہے
وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتی، کیونکہ perfection کبھی achieve نہیں ہوتی
وہ دوسروں کی مدد یا گڑبڑ برداشت نہیں کر سکتی
اور سب سے بڑھ کر… وہ خود کو صرف کام کے قابل سمجھتی ہے، محبت کے نہیں
🌿 اسلامی رہنمائی:
رسول اللہ ﷺ کا عمل تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور کبھی کسی کمی پر تنقید نہ کرتے۔
اسلام نے عورت کو "قدرتی کمزوریوں کے ساتھ قیمتی وجود" مانا ہے، نہ کہ ایک روبورٹک perfectionist۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"
(سورۃ البقرۃ: 286)
"اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔"
تو ہم خود پر اتنا بوجھ کیوں ڈالیں؟
🌸 اب حل کیا ہے؟
1️⃣ Mindfulness Practice کریں:
روزانہ 10 منٹ صرف بیٹھیں، کچھ نہ کریں۔
اپنے دل کی باتیں سنیں۔ صفائی کے شور سے باہر نکلیں۔
2️⃣ Real vs Illusion of Control:
اللہ ہی ہے جو نظام کو سنبھالتا ہے — ہم صرف کوشش کرتے ہیں۔
سکون perfection سے نہیں، اللہ پر توکل سے ملتا ہے۔
3️⃣ Family Delegation سیکھیں:
ہر چیز خود کرنے کے بجائے بچوں، شوہر، یا ملازمہ کو سکھائیں۔
Control چھوڑنا بھی شفاء کا حصہ ہے۔
4️⃣ Acceptance of Imperfection:
کبھی جان بوجھ کر ایک دن کچھ نہ صاف کریں —
اور دیکھیں کہ دنیا نہیں ٹوٹتی…
مگر آپ کا دل شاید پہلی بار سکون لے سکے۔
5️⃣ روحانی توجہ:
روزانہ چند لمحات صرف اللہ کے لیے رکھیں۔
ذکر، دعا، اور تلاوت — یہ آپ کو remind کرتے ہیں کہ
"صفائی آپ کی طاقت ہے… مگر سکون آپ کی ضرورت!"
📡 ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں — جہاں ہر دن ایک شفاء:
💬 کیا آپ بھی ہر چیز perfect رکھنے کی جدوجہد میں خود کو کھو بیٹھی ہیں؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ… شاید اب آپ کو صفائی سے زیادہ سکون کی ضرورت ہے؟
دس صحابہ کرام جن کو آپﷺ نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی خوش خبری دی
وہ دس صحابہ کرام جن کو آپﷺ نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی خوش خبری دی انہیں عشرہ مبشرہ کہتےہیں
حضرت ابوبکرؓ فی الجنہ
حضرت عمرؓ فی الجنہ
حضرت عثمانؓ فی الجنہ
حضرت علیؓ فی الجنہ
حضرت طلحہ فی الجنہ
حضرت زبیر فی الجنہ
حضرت سعد فی الجنہ
عبد الرحمن فی الجنہ
حضرت ابو عبیدہ فی الجنہ
حضرت سعید فی الجنہ
یقینی جنت کے 10 صحابہ کے بارے میں ایک پوسٹ:
اسلامی تاریخ میں، 10 صحابہ کرام کو نبی اکرم ﷺ نے جنت کی ضمانت دی تھی۔ ان صحابہ کو "عشرہ مبشرہ" کہا جاتا ہے۔ ان کے نام اور خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. *حضرت ابوبکر صدیقؓ*: نبی اکرم ﷺ کے قریبی دوست اور پہلے خلیفہ۔
2. *حضرت عمر بن خطابؓ*: دوسرے خلیفہ، انصاف اور حق گوئی کے لئے مشہور۔
3. *حضرت عثمان بن عفانؓ*: تیسرے خلیفہ، قرآن مجید کے نسخوں کی تدوین کے لئے مشہور۔
4. *حضرت علی بن ابی طالبؓ*: نبی اکرم ﷺ کے داماد اور چوتھے خلیفہ۔
5. *حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ*: عظیم مجاہد اور سخی شخصیت۔
6. *حضرت زبیر بن عوامؓ*: نبی اکرم ﷺ کے قریبی ساتھی اور عظیم جنگجو۔
7. *حضرت سعد بن ابی وقاصؓ*: پہلی مرتبہ ایران کو فتح کرنے والے سپہ سالار۔
8. *حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ*: کاروبار میں ماہر اور سخی صحابی۔
9. *حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ*: اُمت کے امانت دار اور عظیم فوجی قائد۔
10. *حضرت سعید بن زیدؓ*: انصاف پسند اور نیک سیرت صحابی۔
یہ دس صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کے خاص تربیت یافتہ اور اعلیٰ درجات کے حامل تھے۔ ان کی زندگیوں سے ہمیں دین کی اعلیٰ اقدار سیکھنے کو ملتی ہیں۔ اللہ ہمیں بھی ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Wednesday, 30 July 2025
۔۔۔۔۔۔نصیراحمد بھلی (سیالکوٹ)
"امی ابو ! مجھے معاف کردیجیے گا میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا خدا حافظ " ملازمت نہ ملنے پر نوجوان نے خودکشی کرلی !
"بھائی ! میں امتحان پاس نہیں کر سکا اب اس ندامت کے ساتھ میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا چلتا ہوں " امتحان میں پاس نہ ہو سکنے پر طالب علم نے زہر کھا لیا !
" امی مجھے معاف کردینا لیکن میں یہ شادی نہیں کر سکتی آخرت میں ملاقات ہوگی " رشتہ کے تنازع پر دوشیزہ نے پھندا گلے میں ڈال لیا احباب ذی وقار ایسی خبریں اور چٹھیاں روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن ہم کسی امتحان میں ناکامی کسی محبت میں دل ٹوٹنے اور کسی بیروزگاری سے تنگی کا لبادہ اوڑھا کر ان چٹھیوں کو بھی ان مایوسی زدہ میتوں کے ساتھ دفنا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے مورد الزام ہمیشہ زبر دستی کرنے والے والدین پیچیدگیوں سے بھرا امتحانی نظام اور کرپشن و سفارش سے بھرا یہ معاشرہ ٹھہرتا ہے - یوں ہم کبھی اس بیماری کا ذکر نہیں کر پاتے جس کو "ڈپریشن " کہا جاتا ہے - جی ہاں ڈپریشن ! یہ وہی بیماری ہے جس کی علامات سنتے ہی ہماری زبان پر ڈرامہ اور اداکاری کےالفاظ جاری ہوجاتے ہیں جو تشخیص سے پہلے نظر لگنا اور تشخیص ہو بھی جایے تو پاگل پن قرار پاتی ہے جس کے نتیجے میں ہونے والے شخصی زوال کو کوئی صدمہ اور خود کشی کوئی کمزور اعصاب کی نشانی مان کر باقی بچوں کو فلموں ڈراموں سے پرہیز کرنے کی تلقین کر کے کام مکا دیا جاتا ہے میرے قلم کی جسارت کے اس سلسلہ کی تحریرجو کسی کی جان بچا لے کا آج موضوع ہے "ڈپریشن" -
قارئین محترم ہر گھر میں ڈپریشن کی مختلف تعریف اور پہچان ہے بیٹے کو ہوجاۓ تو ایموشنل بلیک میلنگ سے ماں باپ کو ڈرانا اور بہو کو ہوجاۓ تو ماں کا سکھایا ہوا ڈرامہ سمجھا جاتا ہے - ماں باپ کو ہوجاۓ تو بڑھاپے کا سٹھیانہ اور ملازم کو ہوجاۓ تو کام سے بچنے کا بہانہ قرار پاتا ہے - ہمارا معاشرہ آج کے جدید دور میں بھی صحت اور طب کی معلومات کے بارے میں شدید گمان اور کم علمی کا شکار ہے جہاں آج بھی شوگر کا علاج مقیت شہد اور ہیپاٹائٹس کا علاج کبوتر سے کیا جاتا ہے وہاں ڈپریشن جیسی پیچیدہ بیماری کو پکڑ پانا اور کنٹرول کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر میں انسان کے جسم میں انسولین بننا بند ہوجاتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں بھی انسان کے دماغ میں بہت سے کیمیکل جن کو " نیورو ٹرانسمیٹر " کہتے ہیں ان کا توازن بگڑجاتا ہے جیسے شوگر کی علامات ہوتی ہیں مثلاً بہت پیاس لگنا وزن کم ہونے لگنا بہت پیشاب آنا ویسے ہی ڈپریشن کی بھی نو علامات ہوتی ہیں جو کہ یہ ہیں
١- کسی کام میں خوشی محسوس نہ ہونا -
٢- مایوس محسوس کرنا
٣- نیند کا نہ آنا یا بہت زیاد آنا ٤- بھوک نہ لگنا -
٥- بولتے ہویے نظر نہ ملا پانا یا بہت تیز تیز بولنا جس سے بی چینی ظاہر ہو -
٦- ہر وقت جسم کا تھکا تھکا محسوس ہونا -
٧- اپنی ذات کے بارے میں اس وہم کا شکار رہنا کہ میں ایک ناکام انسان ہوں اور میری وجہ سے میرے خاندان کو بدنامی دیکھنا پڑ رہی ہے -
٨ کسی بھی کام میں دل نہ لگنا -
٩ - خود کشی کے خیال آنا -
ان میں سے کل چار علامات ہفتے میں زیادہ تر دن موجود ہوں اور انسان کی زندگی اور روز مرہ کاموں میں فرق ڈالیں تو آپ کو کوئی نظر کوئی جادو کوئی وہم یا کوئی ڈرامہ نہیں لاحق ہوا بلکہ آپ اس بیماری کا شکار ہوگئےہیں جو ڈپریشن کہلاتی ہے اور قابل علاج ہے جس کےلئے آپ کو کسی بابا جی کے تعویذ، کسی جوگی کے جھاڑو دم اور کسی آنٹی کی میں بھی کبھی بہو والی نصیحت کی نہی بلکہ ایک مستند ڈاکٹر ایک ماہر نفسیات کی ضرورت ہے بالکل ویسے ہی جیسے شوگر کیلئے آپ کو شوگر کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے - جیسے شوگر انسولین سے کنٹرول رہتی ہے ویسے ہی ڈپریشن کونسلنگ اور میڈیسن سے کنٹرول رہتی ہے - ڈپریشن کی اکثر دوائیں کم از کم چھے مہینوں بعد اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہیں اس لئے فورا نتیجہ نہ ملنے پر ڈاکٹر کو ساہوکاراور دوائی کو کاروبار قرار دینے سے پہلے میرا یہ کالم پڑھ لیں-
جیسے شوگر کنٹرول نہ ہو تو گردے فیل ہوسکتے ہیں اور پاؤں بھی کاٹنا پڑ سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن کا ٹھیک علاج نہ ہو تو انسان مایوسی کا اس حد تک شکار ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو کسی پھندے پر لٹکا کر کوئی تیزاب پی کر کسی چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا دھاگہ کاٹ سکتا ہے - ایک اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پاکستان میں تین سو سے زیادہ لوگ ڈپریشن کی وجہ سے خود کا خاتمہ کر لیتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ شوگر میں تو گھرکے ملازم تک کو علم ہوتا ہے کہ صاحب جی کو شوگر آتی تھی اس لئے پاؤں کٹ گیا لیکن اس بیماری میں کسی الله کے بندے کو نہیں پتا چلتا کہ یہ جو خود کشی ہوئی ہے یہ بیوی سے جھگڑے امتحان میں ناکامی باس سے تو تو میں میں اور محبت میں نامرادی کی وجہ سے نہیں بلکہ کبھی تشخیص نہ ہو سکنے والے ڈپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے -
ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں ٣٥ فیصد لوگوں میں ڈپریشن پایا گیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے - خاندانی رویے معاشرتی پابندیاں کم تعلیم معاشی وسائل کی کمی اور آس پاس بڑھتی انتہاء پسندی وہ عوامل ہیں جن سے اس خود بخود ہونے والی بیماری میں بڑھاوا آتا ہے اور پھر اس تابوت میں آخری کیل کی طرح کسی ایک ہٹ کی ضرورت پڑتی ہے جو اس ڈپریشن کے مریض کو موت تک لےجاتی ہے اور یہ ہٹ کسی امتحان میں ناکامی طلاق ملازمت سے برخاستگی اور محبوب کی بیوفائی جیسی کوئی بھی بات ہوسکتی ہے جو ایک عام تندرست انسان کےلئے بہت معمولی اور روز مرہ کی دیگر باتوں جیسی ہی ہوتی ہے -
خاص طور پر عورتوں میں بچے کی پیدائش کے فورا بعد ڈپریشن کا ایک دور آسکتا ہے جس کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں جس میں وہ بات بات پر رونے لگتی ہے اور چڑچڑی ہوکر کبھی کبھی بچے کی بھی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کر پاتی- اس کی وجہ پیدائش کے فورا بعد جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز کی تبدیلی ہے جو چار پانچ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن اس دوران اکھڑ بد مزاج اور ڈرامہ باز کہنے کی بجاۓ اس کو علاج اورکونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھے اکثر پڑھے لکھے اور اونچے گھرانوں میں بھی نظر نہیں آتی اس بیماری کو بیماری نہ سمجھنے کے رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شوگریعنی ذیابیطس اور ٹی بی یعنی تپ دق کی طرح اس بیماری کا کوئی بلڈ ٹیسٹ کوئی ایکسرے نہیں ہوتا بلکہ بس علامات کی بنیاد پر ایک ماہر کے انٹرویو کی ضرورت ہوتی ہے - ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے ہر دس ہزار میں سے بس ایک مریض اس کی تشخیص کیلئے کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جب کہ باقی نو ہزار نو سو ننانوے لوگ یا تو اس کو ڈرامہ اور ایک بہانہ قرار دیے جا نے کے ڈر سے کبھی اظہار ہی نہیں کر پاتے یا کر بھی دیں تو بس کسی بابے جوگیجھاڑ پھونک کرنے والے مولوی صاحب یا خاندان کی سب سے تجربہ کار خاتون سے نصیحت ڈھونڈتے نظر آتے ہیں - وہ الگ بات ہے کہ جب اس بیماری کی وجہ سے وہ خود کشی کر کے موت کے منہ میں چلے جائیں تو وہی مولوی صاحب اور آنٹی اس موت پر حرام ہونے کا فتوی دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں مرنے والے کی چھوڑی ہوئی وہ کاغذ کی چٹھیاں جو لواحقین کو رہتی عمر تک اس کی ذہنی بیماری کو اداکاری نظر اور بہانہ سمجھنے کی غلطی پر کوستی رہتی ہیں میں نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے میں بس پانچ وقت نماز اور دعا کی نصیحت کرکے بات ختم کردی جاتی ہے اور اس بیماری کو محض نا امیدی قرار دےکر اس کو مسلمانیت سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ مسلمان کبھی نا امید اور ڈپریس نہیں ہوسکتا - احباب ذی وقار یاد رکھیں جیسے ایک مسلمان جسم میں انسولین کی کمی ہونے سے شوگر اور کولسٹرول بڑھنے سے ہارٹ اٹیک کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان جسم میں کیمیکل کے توازن بگڑنے سے اس مرض ڈپریشن کا شکار بھی ہوسکتا ہے ہارٹ اٹیک ہونے کی صورت میں،
یہ معاشرہ ہسپتال کیوں بھاگتا ہے؟
سٹنٹ اور ای سی جی کیلئے ؟ مسجد کا رخ کیوں نہیں کرتا ؟ بس پانچ وقت نماز اور قران کی تلاوت کا درس دے کر بات ختم کیوں نہیں کر دیتا جیسا ڈپریشن میں کرتا ہے ؟ ڈپریشن کو مایوسی قرار دیکر بس ذکر و دعا کا درس دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مایوسی اور ڈپریشن میں فرق ہے - ڈپریشن ایک پوری بیماری ہے جس کی نو علامتوں میں سے بس ایک علامت مایوسی ہے - جیسے شوگر میں دعا کے ساتھ ساتھ انسولین کی بھی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی اس بیماری میں دعا اور ذکر کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے -
میری اس تحریر کی وساطت سےاپ سب انسانیت سے پیار کرنے والے احباب ذی وقار سے التماس یہ ہے کہ ہر ذہنی بیماری بشمول ڈپریشن پاگل پن نہیں ہوتی بلکہ ویسی ہی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر ' دمہ اور بلڈ پریشر بیماریاں ہیں- یہ بالکل قابل علاج ہوتی ہے اور اس علاج سے انسان کی ملازمت تعلقات جذبات اور زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں - اس کےلئے ملک عزیز پاکستان میں بہت سے فری کلینیک بھی قائم ہیں احباب ذی وقار آج وقت کی ضرورت ہے کہ اس موذی مرض سے آگہی کے لیے اپنوں میں بیگانوں میں شادیوں میں جنازوں میں مجلسوں میں میلاد کی محفلوں میں نماز جمعہ کےخطبوں میں تبلیغی اجتماعات میں اس کے علاوہ اپنے گھروں میں اپنی بیٹیوں بہوؤں سے اس پر موضوع پر بات کی جاۓ
کیونکہ اس سے اگر کسی ایک مریض کی وقت سے پہلے تشخیص ہوگئی اور اس سے اس کو خودکشی سے روک کر اس کی جان بچا لی گیی تو یقین مانیں یہ ایک انسان نہیں پوری انسانیت پر رحم ہوگا کیوں کہ اللہ رب العالمین تو خود قران کریم میں فرماتا ہے
"جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی" (المائدہ)
اللہ رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ میرے ملک پیارے پاکستان میں کوئی ایک بھی شہری ڈپریشن کا شکار نہ ہو اللہ رب العزت سب پاکستانیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کے لیۓ معاشی اور معاشرتی آسانیاں عطا فرمائے آمین
جب شیخ راغب نے اپنی بیوی نجيہ کو پہلی بار طلاق دی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
…
تو اُس سے کہا:
“اپنے میکے چلی جاؤ!”
نجیہ نے جواب دیا:
“نہ میں میکے جاؤں گی، اور نہ ہی اس گھر سے باہر قدم رکھوں گی جب تک میری جان نہ نکل جائے!”
شیخ نے کہا:
“میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے، اب میری تم سے کوئی حاجت نہیں، میرے گھر سے نکل جاؤ!”
نجیہ نے پرسکون لہجے میں کہا:
“میں نہیں نکلوں گی، اور تمہارے لیے مجھے اس گھر سے نکالنا جائز بھی نہیں، جب تک میری عدّت پوری نہ ہو جائے۔ اور اس دوران میری نان نفقہ کی ذمہ داری بھی تم پر ہے۔”
شیخ نے غصے سے کہا:
“یہ تو گستاخی اور بے ادبی ہے!”
نجیہ نے جواب دیا:
“میں یہ خود سے نہیں کہہ رہی، بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا کلام ہے:”
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
ترجمہ: اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت کے وقت پر طلاق دو اور عدّت کا شمار رکھو، اور اللّٰه سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کسی صریح بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللّٰه کی حدود ہیں، اور جو اللّٰه کی حدود سے تجاوز کرے، یقیناً وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرتا ہے
(سورۃ الطلاق: آیت 1)
یہ سن کر شیخ نے غصے سے اپنی عباء جھاڑی، اور ناراضی سے گھر سے نکلتے ہوئے بڑبڑایا:
“اللّٰه کی پناہ، یہ لڑکی تو مصیبت ہے!”
نجیہ نے مسکرا کر جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، خود کو سنبھالا، اور اس کے بعد روزانہ قصدًا …
گھر کو خوشبو سے معطر کرتی،
پورا بناؤ سنگھار کرتی،
عطر لگاتی،
اور جب بھی شیخ گھر آتا یا نکلتا، وہ اس کے سامنے موجود ہوتی۔
پانچ دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ دل ہار بیٹھا…
اور رجوع کر لیا۔
ایک دن نجیہ نے ناشتہ تیار کرنے میں تاخیر کر دی۔
شیخ نے غصے سے کہا:
“یہ میرے حق میں کوتاہی ہے، یہ کسی مومن عورت کے شایانِ شان نہیں!”
نجیہ نے نرمی سے جواب دیا:
“اپنے مومن بھائی کے بارے میں اچھے گمان رکھو، حسنِ ظن بہترین صفات میں سے ہے، اور یہ دل کے سکون اور دین کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ جس نے لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھا، اُس نے ان کے دل جیت لیے!”
شیخ بولا:
“یہ باتیں تمہاری کوتاہی کو جواز نہیں دے سکتیں۔ کیا تمہیں یہ منظور ہے کہ میں بغیر ناشتہ کیے گھر سے نکلوں؟”
نجیہ نے جواب دیا:
“سچے مؤمن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللّٰه کے دیے ہوئے تھوڑے پر بھی قناعت کرے۔”
ایک حدیث ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
ترجمہ: وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اُسے اتنا رزق ملا جو کافی ہو، اور اللّٰه نے اسے جو دیا اُس پر قناعت عطا فرمائی۔
(صحیح مسلم، حدیث: 1054)
شیخ نے کہا:
“تو میں کچھ بھی نہیں کھاؤں گا!”
نجیہ نے مسکرا کر کہا:
“تو پھر تم نے اس حدیث سے کچھ نہیں سیکھا”
شیخ بغیر کچھ کہے غصے میں نکل گیا۔ واپس آیا تو بھی خاموش رہا۔
رات کو اس نے بستر چھوڑ کر نیچے فرش پر سونا شروع کر دیا…
یہ سلسلہ دس دن تک چلتا رہا۔
دن میں نجیہ اُس کے تمام کام کرتی، کھانا بناتی، پانی دیتی، اور رات کو دلکش لباس پہن کر، خوشبو لگا کر اپنے بستر پر لیٹتی…
لیکن اُسے دانستہ طور پر کچھ نہ کہتی۔
گیارہویں رات…
شیخ نیچے سو گیا، پھر تھوڑی دیر بعد اپنے بستر پر چڑھ آیا۔
نجیہ نے ہنستے ہوئے کہا:
“کیوں آئے ہو؟”
شیخ نے کہا:
“آئی ایم سوری! میں پلٹ آیا ہوں”
نجیہ نے کہا:
“کششِ ثقل تو کہتی ہے کہ لوگ اوپر سے نیچے پلٹتے ہیں، تم نیچے سے اوپر کیسے پلٹ آئے؟”
وہ مسکرایا اور کہا:
“کششِ ثقل سے زیادہ طاقتور ایک اور کشش ہے: بستر پر موجود بیوی کی کشش!”
پھر خوشی سے بولا:
“اگر ساری عورتیں تم جیسی ہوتیں نجیہ، تو کوئی مرد کبھی طلاق نہ دیتا۔ گھروں کے سارے مسائل ختم ہو جاتے”
پھر اس نے ایک حدیث بیان کی:
من صبرت على سوء خلق زوجها أعطاها اللّٰه مثل ثواب آسية بنت مزاحم
ترجمہ: جو عورت اپنے شوہر کے بد اخلاقی پر صبر کرے، اللّٰه تعالیٰ اسے حضرت آسیہ بنت مزاحم کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے ✳️
شیخ نے محبت سے کہا:
“اے نجیہ! تم میرے لیے اللّٰه کی اطاعت میں بہترین معاون ثابت ہوئیں۔ اللّٰه تمہیں جزائے خیر دے، اور ہمارے درمیان کبھی جدائی نہ ہو!”
……………………
نتیجہ:
ایسے ہی حلم، صبر، حکمت، اور اخلاق سے غصے پر قابو پایا جاتا ہے۔
نجیہ میں جذباتی اور سماجی ذہانت (Emotional & Social Intelligence) کی جھلک تھی۔
جانتے ہو؟ ہر عورت کے اندر ایک “نجیہ” چھپی ہوتی ہے…
ہر وہ عورت جو اپنے رب سے لو لگاتی ہے، وہ “نجیہ” ہے…
جو دنیا کی آزمائشوں سے بچ کر، جنت کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔
اللّٰه تعالیٰ ہمیں بھی ایسے حلم، وفا، صبر، اور دین داری سے نوازے،
اور ہمیں انبیاء و صالحین کے ساتھ جنت الفردوس میں اکٹھا فرمائے۔ آمین۔
— خالد اشعری
✳️: کنزالعمال: 44759، ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے لیکن نصیحت کے طور پر بیان کی جاتی ہے — ا ر ف
__.__
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
۔۔۔
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا،
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں
Tuesday, 29 July 2025
اپنے شریکِ حیات کے ساتھ ناانصافی مت کریں
1️⃣ جب آپ کے سب سے بڑے کلائنٹ کی کال مس ہو جائے تو آپ فوراً واپس کال کرتے ہیں،
لیکن جب آپ کو اپنے شریکِ حیات کی مس کال نظر آئے… تو آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
2️⃣ جب آپ کو دفتر میں نیا باس ملتا ہے، تو آپ اچھا تاثر دینے کے لیے تحفے تک خرید لیتے ہیں،
لیکن یاد کریں… آخری بار کب آپ نے اپنے شریکِ حیات کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی؟
3️⃣ جب آپ کسی صدر، مشہور شخصیت یا سیلبریٹی کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں تو فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں،
لیکن آپ کو اپنے شریکِ حیات کے ساتھ ایک تصویر لگانے میں بھی شرم آتی ہے — جیسے آپ اس سے منسلک ہی نہیں ہونا چاہتے۔
4️⃣ آپ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر دوسرے بچوں کی تعریف کرتے ہیں،
لیکن اپنے بچوں (جو آپ کے شریکِ حیات کے ساتھ ہیں) کے لیے کوئی محبت بھرے الفاظ نہیں رکھتے۔
5️⃣ جب آپ کو کوئی ایوارڈ یا کامیابی ملتی ہے تو آپ شکریہ کے جذبے سے بھر جاتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات آپ کی تعریف کرے، تو آپ نظرانداز کر دیتے ہیں یا مذاق اُڑا دیتے ہیں۔
6️⃣ جب آپ اپنے امام، شیخ یا استاد سے بات کرتے ہیں تو نرمی اور ادب سے پیش آتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات سے بات ہوتی ہے تو آپ کا لہجہ سخت اور چہرہ سپاٹ ہوتا ہے۔
7️⃣ جب کوئی اجنبی بھی اچھے کپڑے پہنے، تو آپ سراحتاً یا آنکھوں سے تعریف کرتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات خوبصورتی سے تیار ہوتا ہے تو آپ خاموش رہتے ہیں۔
8️⃣ جب کسی کلائنٹ سے ملاقات ہو تو آپ اسے کسی بہترین ریسٹورنٹ میں لے جاتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات کو ایک بار بھی کھانے پر لے جانا گوارا نہیں کرتے۔
9️⃣ جب دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو سیاستدان، اداکار، گلوکار، کھلاڑیوں کی تعریف کرتے ہیں جو آپ کو جانتے بھی نہیں،
لیکن شریکِ حیات کی، جو ہر دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ ہے، ایک تعریف بھی نہیں کرتے۔
🔟 جب کوئی مشہور شخصیت آپ سے ملنا چاہے تو آپ سب کام چھوڑ کر وقت کام پہنچ جاتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات کو آپ کا وقت مانگنے کے لیے بار بار کہنا پڑتا ہے۔
1️⃣1️⃣ جب دفتر میں رائے مانگی جائے تو آپ بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات مشورہ مانگے تو آپ بے دلی سے یا بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔
1️⃣2️⃣ جب دوست یا محفل میں کسی کو رقم دینی ہو تو آپ کھلے دل سے دیتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات یا بچہ کچھ مانگے تو آپ بہانے، انکار اور حساب کتاب پر آ جاتے ہیں۔
1️⃣3️⃣ دفتر میں آپ ٹیم ورک دکھاتے ہیں کیونکہ کمپنی کی ترقی چاہتے ہیں،
لیکن شادی میں نہ ٹیم ورک ہے نہ محبت کی پرورش۔
1️⃣4️⃣ جب آپ آفیشل ای میل لکھتے ہیں تو ’’مہربانی فرما کر‘‘، ’’براہِ کرم‘‘، ’’اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے‘‘ جیسے مہذب الفاظ استعمال کرتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات سے بات ہو تو لہجہ سخت، الفاظ خشک اور رویہ حکم دینے والا ہوتا ہے۔
---
❓ کیوں؟
ہم اُس انسان کے ساتھ بے رحمی کیوں کرتے ہیں
جسے ہم نے اپنا ہمسفر چنا؟
جس کے ساتھ زندگی گزارنے کا وعدہ کیا؟
جو ہمیں روز اپنا سب کچھ دیتا ہے؟
🌸 اب وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں
اور اپنے شریکِ حیات کو وہ محبت، عزت اور توجہ دیں
جس کے وہ حقیقتاً حقدار ہیں۔
ارطغرل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہیں, آپکی پیدائش
ارطغرل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہیں, آپکی پیدائش 1188 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھہ کتابیں 1281 بتاتی ہیں, آپ کے تین بیٹے تھے گوھر, شھریار اور عثمان اور آپکے اسی بیٹے نے 1291 یعنی ارطغرل اپنے والد کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارطغرل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارطغرل غازی رح رکھ کے گئے تھے….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا…
ارطغرل غازی کا خاندان وسطی ایشیاء سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتے تھے۔ آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذلجان, گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسط ایشیا Central Asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آیا تھا۔ منگولوں کی یلغار سے بچنے کے لئے جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی۔
1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین سربراہ بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے۔
اور قائی قبیلے کے سربراہ ارطغرل غازی بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے۔ پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے۔ 1232 جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے العزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارطغرل غازی نے العزیز سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھانجی حلیمہ سلطان سے شادی جس سے آپکے تین بیٹے ہوئے۔
آپ نے ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارطغرل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارطغرل غازی نے منگولوں کے ایک اہم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوگتائی خان کا Right hand تھا ,اوگتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوگتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد روندا تھا۔۔۔
اور پھر ارطغرل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سو گوت Sogut آئے قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہی تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا۔
سلطان علاو الدین کی وفات کے بعد ارطغرل غازی سلطان بن گئے سلجوک ریاست کے اور اسکی نسل سے جاکے سلطان محمد فاتح رح تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی……
تاریخ میں ارطغرل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن افسوس کے ہماری نسل انکو جانتی ہی نہیں…
اسلام میں جتنے جنگجو گذرے ہیں جس نے کچھ نہ کچھ اسلام کے لیئے کیا ھے، ان کا ایک روحانی پہلو ضرور ہوتا ھے, ان کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی روحانی شخصت (ولی اللہ) ہوتی ہے جن کی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے۔
تاریخ اٹھا لیں اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے اور امت مسلمہ کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو ان کا کوئی نہ کوئی روحانی پہلو ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلیٰ علیہ والہ وسلم کے فیضان سے جن کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ شیخ محی الدین ابن العربی رحمہ تھے جو اندلس سے ارطغرل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی خوبصورت حدیث شریف ہے کہ:
” اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور الله
ترجمہ:
مومن کی فراصت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
یہ کوئی جذباتی یا مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہ سب وہی سمجھ سکتا جسکو یہ روحانیت کا نور ملا ہو۔ اور جسکو یہ نور نہیں حاصل ہوا وہ اندھا ہے اسے کچھ سجھ نہیں آئے گا۔ جیسے لبرل سیکیولر برگیڈ۔
اللہ پاک ارطغرل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمت ہو ان پے…!!!!
آمین ثم آمین
Three moral Story
*تین بے مثال تحاریر*
*محل
*تین بے مثال تحاریر*
*محل سے کھنڈر تک __ سے کھنڈر تک __!!*
اندلس کے مسلم حکمرانوں میں سلطان عبدالرحمان ثالث بہت مشہور هے- وه 300هہ میں تخت سلطنت پر بیٹها اور 350 هہ میں بہتر سال کی عمر میں وفات پائی- اس کی ایک عسائی بیوی تهی جس کا نام زہرا تها- سلطان نے اپنی اس بیوی کے نام پر قرطبہ کے کنارے ایک شاندار محل تعمیر کیا اور اس کا نام الزہره رکها- چار میل لمبا اور تین میل چهوڑا یہ محل اتنا بڑا تها کہ اس کو قصر الزہره کے بجائے مدینتہ الزہره کہنے لگے- اس محل کی تعمیر 325 هہ میں شروع هوئی اور پچیس سال میں 350 هہ میں مکمل هوئی- المقری نے اس محل کی جو تفصیلات لکهی ہیں اس کے لحاظ سے یہ محل الف لیلہ کا کوئی طلسماتی شہر معلوم هوتا ہے۔
اس محل کے بنانے پر دس ہزار معمار، چار ہزار اونٹ اور خچر روزانہ کام کرتے تهے- اس میں 4316 برج اور ستون تهے- سنگ مر مر اور دوسرے بہت سے قیمتی سامان فرانس، ترکی، یونان، شام اور افریقہ کے ملکوں کے بادشاہوں نے بطور تحفہ دئے تهے- اس کے چهتوں میں سونے چاندی کا کام اس کثرت سے کیا گیا تها کہ دیکهنے والوں کی آنکهہ چمکتی تهی- اس محل کے انتظام اور نگرانی کے لئے 13750 ملازم مقرر تهے- اس کے علاوه 13382 غلام تهے- حرم سرا کے اندر چهہ ہزار عورتیں خدمت گزاری کے لئے حاضر رہا کرتی تهیں- سارا قصر باغات اور فواروں سے گلزار رہتا تها- یورپ اور دوسرے ملکوں کے سیاح کثرت سے اس کو دیکهنے کے لئے آتے رہتے تهے ۔
مگر اس عظیم محل کا انجام کیا هوا- 25سال میں موجوده معیار سے ایک کهرب روپیہ سے بهی زیاده میں بننے والا محل صرف پچاس سال میں ختم هو گیا- اندلس کے مسلم حکمرانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے عسائیوں نے ان کے اوپر قابو پا لیا اور ان کو شکست دے کر ان کے نام و نشان تک کو مٹا ڈالا، قرطبہ کا الزہره کهنڈر بنا دیا گیا- اس کے بعد اس پر زمانہ کی گرد پڑتی رہی- یہاں تک کہ وه نظروں سے غائب هو گیا- موجوده زمانہ میں اس مقام پر کهدائی کی گئی ہے- مگر کهدائی کرنے والوں کو وہاں ٹوٹی هوئی نالیوں کے سوا اور کچهہ نہیں ملا ۔
دنیا میں عیش و آرام کے نشانات کو مٹا کر خدا دکهاتا ہے کہ اس کی نظر میں یہاں کے عیش و آرام کی کوئی قیمت نہیں، مگر کوئی آدمی اس سے سبق نہیں لیتا- ہر بعد والا عین اسی مقام پر اپنا عیش خانہ بنانے میں مصروف هوجاتا ہے جہاں اس کے پیش رو کا عیش خانہ برباد هوا تها۔
( 📖 اسباق تاریخ ۔۔۔۔۔۔)
✍🏻
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ترکی کے ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺗﯿﻞ ﺍﮔﺮﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ، ﻣﮕﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﮑﻢ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ ﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﭼﻞ ﮐﺮﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮﺷﯿﺦ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ : ﺍﺫﺍ ﺩﺏ ﻧﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺸﺠﺮ ﻓﮭﻞ ﻓﯽ ﻗﺘﻠﮧ ﺿﺮﺭ؟ "
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽﺿﺮﺭ ﮨﮯ؟ " ، ﺟﺐ ﺷﯿﺦ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﺎ : ﺍﺫﺍﻧﺼﺐ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﺍﻟﻌﺪﻝ ﺍﺧﺬ ﺍﻟﻨﻤﻞ ﺣﻘﮧ ﺑﻼ ﻭﺟﻞ " ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﺗﺮﺍﺯﻭﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎں ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ " ، ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﺎﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ !
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺁﺳﭩﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺩﺍﺭ ﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯﺟﮩﺎﺩ ﯼ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺴﺪﺧﺎﮐﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﻻیا گیا، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺠﮩﯿﺰ ﻭ ﺗﮑﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥﺁﭖ ﮐﺎ ﻭﺻﯿﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﮭﯽﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻭ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧﮨﯿﺮﮮ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺍ ﮨﻮﺍ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﯽﻣﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﺍ،ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺱﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺘﻮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺛﺒﻮﺕﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺧﻼﻑﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ، ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﯿﺦﺍﻻﺳﻼﻡ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﻮﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺗﮭﮯ ﺭﻭ ﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ :ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﯾﮧ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯﺧﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﯾﮧ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺑﺎﻭ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﮐﻮ ﺩﮨﺮﺍﻭ ﺍﻭﺭ اسلام ﮐﮯ نظام کے ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ محنت کریں
بحوالہ : ( تاریخ ترکیہ ).
منقول۔"
✍🏻
*دنیا میں کوئی کسی کا راز دار نہیں __!!* 🩵
ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا ۔ اُسے کبھی کسی نے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا ۔
ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی ، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے ، لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا ، آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک شرط پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا ۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی ۔ بادشاہ نے بتایا کہ ،
اُس کے سر پر ایک سینگ ہے ، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ !"
اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے ۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا ۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے ۔
وزیر بہت سمجھدار تھا ، وہ جھٹ سے بولا ، "بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ آپکے راز کو چھپا کر رکھے ۔ لہٰذا جتنی سزا کا حقدار میں ہوں اُتنی آپکو بھی ملنی چاہیے ۔ ۔ !"
میرے عزیز دوستو ! زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر جب نکلتے ہیں تو دو کام ہوتے ہیں ۔
◘ پہلا یہ کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے ۔ چاہے لاکھ پچھتاوے کے ہاتھ ملو ۔
◘ اور دوسرا یہ کہ وہ پھر جہاں جہاں سے گزرتے ہیں اپنی شدت اور قوت کے مطابق زخم لگاتے جاتے ہیں ۔ جس کا دوش ہم اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں دے سکتے...!!
#بےمثال_تحاریر
پھلوں کے فوائد اور نقصانات
پھلوں کے فوائد اور نقصانات
قدرت نے ہر پھل میں خاص غذائیت اور شفاء رکھی ہے، لیکن ہر پھل کا صحیح استعمال جاننا بھی ضروری ہے۔ آئیے مختلف پھلوں کے اہم فوائد اور ممکنہ نقصانات پر ایک نظر ڈالیں:
🍋 آم (Mango)
فوائد: زود ہضم، نیا خون بناتا ہے، جسم کو موٹا اور طاقتور کرتا ہے، دل، دماغ اور پھیپھڑوں کو تقویت دیتا ہے، دودھ کے ساتھ استعمال جسم کو قوت دیتا ہے۔
نقصانات: نہار منہ اور کھٹا آم نقصان دہ ہوتا ہے، بدہضمی اور گرمی پیدا کر سکتا ہے۔
🍎 سیب (Apple)
فوائد: دماغی اور جگر کی غذا، رنگت نکھارتا ہے، رخساروں میں سرخی لاتا ہے، خون پیدا کرتا ہے، دانت اور گردوں کے لیے مفید۔
نقصانات: بھاری اور دیر سے ہضم ہوتا ہے، زیادہ مقدار میں کھانے سے گیس یا اپھارہ ہو سکتا ہے۔
🍌 کیلا (Banana)
فوائد: مقوی، توانائی بخش، جسم کو موٹا کرتا ہے، خون پیدا کرتا ہے، وٹامنز سے بھرپور۔
نقصانات: کمزور معدے والے احتیاط کریں، زیادہ مقدار میں گیس یا اپھارہ کر سکتا ہے۔
🍊 مالٹا (Orange)
فوائد: خوش ذائقہ، خون بنانے والا، بدہضمی اور بخار میں مفید، ہاضم اور تازگی بخش۔
نقصانات: کھانسی اور زکام میں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
🍈 سنگترہ (Sweet Orange)
فوائد: معدہ صاف کرتا ہے، قبض دور کرتا ہے، جگر و دل کو تقویت دیتا ہے، سینے کی صفائی، بچوں کے لیے بہترین۔
نقصانات: بہت زیادہ استعمال سے سردی یا زکام ہو سکتا ہے۔
😋 خربوزہ (Melon)
فوائد: فرحت بخش، یرقان، قبض اور پیشاب کے مسائل میں مفید، ماں کے دودھ کی فراہمی میں مددگار۔
نقصانات: زیادہ مقدار گرمی اور گیس پیدا کر سکتی ہے۔
🥕 گاجر (Carrot)
فوائد: سرد تر، وٹامن A سے بھرپور، خون بناتی ہے، دل، دماغ، معدہ کو طاقت دیتی ہے، کئی شکلوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔
نقصانات: اگر بہت زیادہ مقدار میں کھائی جائے تو ہاضمہ متاثر ہو سکتا ہے۔
🍑 بیر (Jujube)
فوائد: خون صاف کرتا ہے، بینائی بہتر بناتا ہے، بھوک لگاتا ہے، ہاضم، پیاس بجھاتا ہے۔
نقصانات: بہت زیادہ استعمال سے قبض یا خشکی ہو سکتی ہے۔
🥝 شکر قندی (Sweet Potato)
فوائد: طاقتور، قابض، پھیپھڑوں کو تقویت دیتی ہے، جسمانی محنت کرنے والوں کے لیے بہترین۔
نقصانات: بھاری ہونے کے باعث سونف کے ساتھ استعمال بہتر ہوتا ہے۔
😋 سردا / خربوزہ خاص قسم (Musk Melon)
فوائد: دل، دماغ، گردے، مثانے کو تقویت دیتا ہے، پیشاب آور، جسم میں رطوبت بڑھاتا ہے۔
نقصانات: ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے بلغمی مزاج والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
🌳 جامن (Jamun)
فوائد: خون صاف کرتا ہے، دانت مضبوط کرتا ہے، بال گرنے سے روکتا ہے، مثانے کی کمزوری میں مفید۔
نقصانات: زیادہ مقدار میں قابض ہوتا ہے۔
🍑 خوبانی (Apricot)
فوائد: جسم کو طاقت دیتی ہے، قبض کشا، بخار، بواسیر، آنتوں کے کیڑے مارتی ہے۔
نقصانات: زیادہ استعمال پیٹ میں گرمی یا اپھارہ پیدا کر سکتا ہے۔
😋 شریفہ (Custard Apple)
فوائد: دل، دماغ کو طاقت دیتا ہے، خوش ذائقہ۔
نقصانات: دیر ہضم، اپھارہ پیدا کر سکتا ہے۔
🍒 لیچی (Lychee)
فوائد: پیاس بجھاتی ہے، دل و دماغ کے لیے فرحت بخش۔
نقصانات: بھاری پھل ہے، کم مقدار میں کھائیں۔
🍅 ٹماٹر (Tomato)
فوائد: بھوک بڑھاتا ہے، کھانے کو ہضم کرتا ہے، کچا ٹماٹر قبض کشا اور شوگر/موٹاپے کے مریضوں کے لیے مفید۔
نقصانات: زیادہ گھی والے کھانے کے ساتھ فائدہ کم ہو جاتا ہے، زیادہ استعمال سردی دے سکتا ہے۔
🍇 انگور (Grapes)
فوائد: طاقتور، قبض کشا، دماغ و آنکھوں کے لیے مفید، کمزور مریضوں کے لیے انگور کا رس بہترین۔
نقصانات: شوگر کے مریض زیادہ احتیاط سے استعمال کریں۔
🍐 ناشپاتی (Pear)
فوائد: دل، دماغ، جگر، معدہ کو طاقت دیتی ہے، قبض کشا، چھلکے سمیت کھانا زیادہ مفید۔
نقصانات: بہت ٹھنڈی تاثیر رکھتی ہے، بلغمی مزاج والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
🎋 گنا (Sugarcane)
فوائد: جسم کو موٹا کرتا ہے، پیشاب آور، پیٹ کی گرمی کم کرتا ہے، دانتوں سے چوسنا بہتر۔
نقصانات: بلغم/بادی مزاج والوں کے لیے مضر، رس دیر ہضم ہوتا ہے۔
🍍 انناس (Pineapple)
فوائد: دل، دماغ کو تقویت دیتا ہے، فرحت بخش، بے چینی دور کرتا ہے۔
نقصانات: ٹھنڈی تاثیر رکھنے کے سبب زیادہ مقدار نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
🍐 امرود (Guava)
فوائد: فرحت بخش، دل، دماغ اور معدے کو طاقت دیتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے۔
نقصانات: کھانے کے فوراً بعد کھانا مضر ہے، زیادہ مقدار میں قبض پیدا کرتا ہے۔
📌 خلاصہ:
ہر پھل اپنے اندر شفا کا خزانہ رکھتا ہے، مگر اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا ضروری ہے۔ مزاج، موسم، اور جسمانی کیفیت کے مطابق پھلوں کا انتخاب صحت مند زندگی کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔
Session Jug and his moral story
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
مجھے مدت پہلے ایک سیشن جج ملے’ ان کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا’ میں نے ان سے حادثے کی وجہ پوچھی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ انہوں نے بتایا’ میں اپنی بیٹی کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیا’ وہاں موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے بیٹی کا بیگ کھینچ لیا’ میری بیٹی نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ موٹر سائیکل کے ساتھ گھسیٹنے لگی’ میں مدد کے لیے دوڑ کر گیا تو ڈاکو گھبراگئے اور انہوں نے گولی چلا دی’ ایک گولی میرے ہاتھ پر لگ گئی اور دوسری بیٹی کے سر پر’ بیٹی وہیں انتقال کر گئی جب کہ میرے ہاتھ کا زخم بگڑ گیا اور ڈاکٹر دو ماہ بعد ہاتھ کاٹنے پر مجبور ہو گئے’
وہ اس کے بعد دھاڑیں مار کر رونے لگے’ میں نے ان کی ڈھارس بندھائی تو انہوں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا ‘‘میں اپنی بیٹی یا اپنے ہاتھ کی وجہ سے نہیں رو رہا’ میں مجرموں کی وجہ سے رو رہا ہوں’ میں نے ملازمت کے زمانے میں صرف چند ہزار روپے کے لالچ میں بے شمار چوروں اور ڈاکوؤں کو چھوڑ دیا تھا’ مجھے روز محسوس ہوتا ہے مجھ پر گولی چلانے والا میرا ہی چھوڑا ہوا کوئی مجرم ہو گا’ یہ احساس مجھے اب جینے نہیں دیتا۔ مجھے کراچی میں ٹریفک پولیس کے ایک افسر سے ملاقات کا موقع ملا’ اس کی کہانی بھی انتہائی تکلیف دہ تھی’ اس کا خاندان سفر کر رہا تھا’ سڑک کی دوسری طرف سے گاڑی آئی اور ان کی گاڑی سے ٹکرا گئی’ یہ کار چھوٹی تھی’ یہ کھائی میں جا گری’
اس افسر کا پورا خاندان حادثے میں انتقال کر گیا’ اس کا خیال تھا میں پیسے لے کر ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا کرتا تھا’ میں سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی ہزار دو ہزار روپے لے لیا کرتا تھا’ مجھے محسوس ہوتا ہے میرے خاندان کو مارنے والا بھی میرا ہی کوئی لائسنس ہولڈر ہو گا یا پھر میں نے اسے چھوٹی بڑی غلطی کے بعد چھوڑ دیا ہو گا اور اس نے میرے پورے خاندان کو قتل کر دیا۔ مجھے اسی طرح تعلیمی بورڈ کا ایک سابق چیئرمین ملا’ اس کا خاندان کسی زیرتعمیر پل کے ستون کے نیچے آ کر مارا گیا تھا’ اس کا کہنا تھا میں نے سینکڑوں نالائق نوجوانوں کو میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہنچایا تھا چناں چہ ہو نہ ہو وہ پل میرے ہی کسی کلائنٹ نے بنایا ہوگا اور وہ میرے ہی خاندان پر گر گیا اور مجھے اسی طرح ایک دودھ فروش ملا’
اس کے تین بچے تھے اور تینوں جسمانی طور پر کم زور تھے’ مجھے اس نے بتایا میرے بچوں کو بچپن میں دودھ سے الرجی تھی’ یہ دودھ نہیں پی سکتے تھے جس کی وجہ سے ان کی گروتھ رک گئی’ میں نے اسے بتایا’ آج کل یہ بیماری لاعلاج نہیں ’ تم کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کر لیتے’ اس نے مسکرا کر جواب دیا’ جاوید صاحب دنیا کے پاس اس بیماری کا علاج ہو گا لیکن میرے بچے اس علاج سے ٹھیک نہیں ہو سکیں گے’ میں نے اس یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے ہول ناک کہانی سنائی’
اس کا کہنا تھا میرے پاس پچاس بھینسیں تھیں’ میں ان کا دودھ بیچتا تھا’ میں لالچ میں آگیا اور بھینسوں کو ٹیکے بھی لگانے لگا اور دودھ میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر (سرف) اور یوریا کھاد بھی ملانے لگا’ میں نے اس سے لاکھوں روپے کمائے لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بچوں کو دودھ سے الرجی کر دی اور میں انہیں اٹھا اٹھا کر پھرنے لگا’ میں جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ ہزاروں بچے آ جاتے تھے جنہیں میں یوریا اور سرف والا دودھ پلاتا رہا’ ان بچوں کاکیا بنا ہو گا؟ کیا وہ زندہ ہوں گے؟ اگر ہاں تو ان کے معدوں کی کیا صورت حال ہو گی چناں چہ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں میرے بچوں کا مرض لاعلاج ہے’ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے گناہوں کا نہیں اور میں گناہ گار ہوں۔
میں چند دن قبل ایک دوست کے دفتر گیا’ اس دن ان کے محکمے میں بھرتیاں چل رہی تھیں’ میرے دوست مجھے بتانے لگے اقرباء پروری کا یہ عالم ہے میرے پاس درجہ اول اور دوم کے لیے بھی وزیروں کی سفارشیں آ رہی ہیں’ انہوں نے اس کے بعد چٹوں کا پورا دستہ میرے سامنے رکھ دیا’ میں نے اپنے دوست کو گناہ جاریہ کی تھیوری سنائی اور اس کے بعد اس سے کہا تم اگر اپنے کسی سفارشی اور نااہل چپڑاسی کے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو تو پھر ساری نوکریاں ان چٹوں میں بانٹ دو اور اگر اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہتے ہو تو صرف اور صرف میرٹ پر فیصلہ کرو اور اہل لوگوں کو سلیکٹ کرو’ تم صدقہ جاریہ کا حصہ بن جاؤ گے اوران لوگوں اور ان کے خاندانوں کی دعائیں دہائیوں تک تمہارے خاندان کی حفاظت کریں گی’ میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ اس نے تمام چٹیں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیں اور پی اے کو بلا کر کہا ‘‘ہم کام یاب امیدواروں کی فہرست نہیں لگائیں گے’ تم ان سب کو دفتر بلاؤ گے اور ہم ان کی براہ راست جوائننگ لیں گے’’ پی اے نے گھبرا کر کہا ‘‘سر نیب’’ میرے دوست نے جواب دیا ‘‘میں اس صدقہ جاری کے لیے جیل جانے کے لیے بھی تیار ہوں’
Copy
Monday, 28 July 2025
جب شوہر دوسروں کی باتوں میں آ کر بیوی سے بدگمان ہو جائے
جب شوہر دوسروں کی باتوں میں آ کر بیوی سے بدگمان ہو جائے…
ایک ایسی آزمائش… جو نہ صرف بیوی کی خودی کو کچل دیتی ہے، بلکہ پورے گھر کا سکون چھین لیتی ہے۔
"میں نے تو کچھ غلط نہیں کیا…
پھر وہ مجھ سے دور کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
کیا سچ میں میں اتنی بری ہوں… جتنی اُس کی ماں یا بہنیں کہتی ہیں؟"
یہ سوال وہ ہر عورت کرتی ہے جس کا شوہر اُس سے نہیں… کسی تیسرے کے بنائے ہوئے خیال سے بات کرتا ہے۔
یہ صرف بدگمانی نہیں…
یہ Gaslighting ہے —
یعنی عورت کو اس حد تک شک میں ڈال دینا کہ وہ اپنی نیت، اپنے رویے، حتیٰ کہ اپنے دل کی سچائی پر بھی یقین کھو بیٹھے۔
شوہر جب ماں، بہن، یا کسی اور فرد کی بات کو بغیر تحقیق کے حتمی سمجھ کر بیوی پر شک کرنے لگتا ہے…
تو وہ اصل میں اپنے گھر کی بنیاد میں زہر گھول دیتا ہے۔
🧠 نفسیاتی پہلو:
ایسی صورتحال میں عورت:
خود کو defend کرنے کی تھکن سے emotional shutdown کا شکار ہو جاتی ہے
ہر وقت اپنی غلطی تلاش کرتی ہے… چاہے وہ ہو بھی نہ
محبت کے لیے تڑپتی ہے، مگر "برا ثابت نہ ہونے" کی جنگ میں تنہا رہ جاتی ہے
یہی وہ وقت ہوتا ہے…
جب ایک عورت کا Self-worth ختم ہونے لگتا ہے
اور اُس کا یقین، شوہر سے پہلے — اپنے آپ سے ٹوٹنے لگتا ہے۔
اسلامی رہنمائی:
قرآن نے واضح فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ، إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
(سورۃ الحجرات: 12)
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔"
شوہر کا بغیر تحقیق، بیوی پر شک کرنا…
ایمان کے اس حسن کے خلاف ہے جو انسان کو ظن سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔
🛡️ عملی حل — بیوی کے لیے:
1️⃣ حدود متعین کریں:
اگر ساس، نند یا کوئی بھی آپ کے خلاف زہر گھول رہا ہے،
تو خاموشی نہیں… حکمت سے حد بندی کی ضرورت ہے۔
2️⃣ Soft Assertiveness اختیار کریں:
"میں آپ سے محبت کرتی ہوں، لیکن میں ہر بات کا الزام نہیں سن سکتی۔
میں چاہتی ہوں کہ ہم حقائق کی بنیاد پر بات کریں… نہ کہ صرف الزامات پر۔"
3️⃣ باتوں کے بجائے کردار سے جواب دیں:
لوگوں کی زبانوں سے نہیں…
آپ کا صبر، اخلاق، اور نرمی آپ کے حق میں گواہی دیں گے۔
4️⃣ روحانی قوت پیدا کریں:
تہجد میں اللہ سے کہیے:
"یا اللہ! میرے دل کو صبر دے، میرے شوہر کے دل میں حق کا نور پیدا فرما، اور میرے کردار کو میری سب سے بڑی دلیل بنا دے۔"
5️⃣ شخصی اعتماد بحال کریں:
یاد رکھیے —
آپ کا وجود صرف بیوی ہونے سے وابستہ نہیں،
آپ ایک مکمل انسان، عبد، اور باوقار مومنہ بھی ہیں۔
💫 یاد رکھیں:
عورت اگر اپنے رویے، سوچ اور دعا سے اللہ کو اپنا حمایتی بنا لے تو پھر دنیا کی کوئی سازش، کوئی بدگمانی… اُسے نہ گرا سکتی ہے، نہ مٹا سکتی ہے۔
📲 اگر آپ اس وقت ایسی کسی بدگمانی کا شکار ہیں…
تو Ideal Life Counseling آپ کی آواز ہے۔
جہاں نہ صرف آپ کو سنا جائے گا،
بلکہ آپ کو سمجھا بھی جائے گا۔
علم کے معنی: علم" عربی زبان کا لفظ ہے
علم کے معنی:
"علم" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "جاننا"، "آگاہی حاصل کرنا"، یا "کسی شے کی حقیقت تک پہنچنا"۔ علم دراصل کسی چیز کو اس کی اصل حقیقت کے ساتھ جاننے کا نام ہے۔ یہ صرف الفاظ یاد کرنے کا عمل نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
علم کی وضاحت:
علم انسان کی عقل و شعور کو جلا بخشتا ہے۔ یہ انسان کو اندھی تقلید، جہالت اور گمراہی سے نکال کر آگاہی، روشنی اور فہم و فراست کی طرف لے جاتا ہے۔ علم صرف دنیوی معاملات تک محدود نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔
علم کا مقصد:
علم حاصل کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچانے، دنیا کو بہتر طور پر سمجھے، اور خدا کی معرفت حاصل کرے۔ علم انسان کو اچھے اور برے میں فرق سکھاتا ہے، اسے مقصدِ حیات سے روشناس کراتا ہے اور ایسی زندگی گزارنے کی راہ دکھاتا ہے جو دوسروں کے لیے مفید ہو۔
علم کا مقصد صرف دنیاوی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی بہتری بھی ہے۔
اسلام میں علم کا مقصد:
اسلام نے علم کو بہت بلند مقام دیا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت "اقْرَأْ" (پڑھ) اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ علم اسلام کی بنیادوں میں شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"
اور
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔"
اسلام میں علم کا اصل مقصد اللہ کی معرفت، نیک عمل، عدل، اور معاشرے کی اصلاح ہے۔ صرف وہ علم مفید ہے جو انسان کو رب کے قریب کرے، اس کے اخلاق کو سنوارے، اور دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہو۔
قرآن مجید میں بارہا غور و فکر، تدبر اور تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو خلیفۃُ اللہ بننے کے لائق بناتا ہے۔
اسلام میں علم صرف دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کی اصلاح اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ ہمیں علم کو صرف امتحانات کی تیاری یا ملازمت کے لیے نہ سیکھنا چاہیے بلکہ اپنی شخصیت، معاشرہ اور آخرت سنوارنے کے لیے سیکھنا چاہیے۔ یہی علم کا حقیقی مقصد ہے۔
"علم سے عمل تک کا سفر کیسے ممکن ہوتا ہے؟"
یہ سوال نہ صرف فکری گہرائی رکھتا ہے بلکہ عملی زندگی میں کامیابی کی کنجی بھی اسی میں چھپی ہے۔
علم ایک قیمتی خزانہ ہے، مگر جب تک وہ عمل کی شکل اختیار نہ کرے، وہ صرف ایک ذخیرہ ہی رہتا ہے۔ علم کا اصل فائدہ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب وہ ہمارے کردار، اخلاق، اور فیصلوں میں جھلکے۔
یعنی:
> "علم وہ نہیں جو صرف ذہن میں ہو، بلکہ وہ ہے جو زندگی میں دکھائی دے۔"
1. نیت کی درستگی
علم حاصل کرنے کی نیت صرف ڈگری، شہرت یا دنیاوی فائدے کے لیے نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اصلاح کریں، دوسروں کے لیے فائدہ مند بنیں اور اللہ کی رضا حاصل کریں۔
2. سمجھ بوجھ پیدا کرنا
صرف رٹا لگانا علم نہیں، بلکہ علم کا مطلب ہے سمجھ کر سیکھنا۔ جب ہم کسی بات کو سمجھ لیتے ہیں تو اس پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
3. خود احتسابی (Self-Reflection)
خود سے یہ سوال کرنا:
کیا میں جو جانتا ہوں، اس پر عمل بھی کرتا ہوں؟
یہ سوال انسان کو اپنے علم کو عمل میں بدلنے کی طرف مائل کرتا ہے۔
4. تدریجی عمل
عمل ایک دن میں مکمل نہیں ہوتا۔ علم کو چھوٹے چھوٹے قدموں میں عمل میں لانا چاہیے۔ مثلاً اگر ہم نے سچ بولنے کی اہمیت پڑھی ہے، تو روزمرہ میں ایک سچائی کو اپنانا ابتدا ہو سکتی ہے۔
5. اچھے ماحول کا اثر
جو لوگ خود علم و عمل پر کاربند ہوں، ان کی صحبت انسان کو نیکی اور عمل کی طرف مائل کرتی ہے۔ ایسے دوست اور اساتذہ علم سے عمل کی راہوں کو آسان بناتے ہیں۔
6. دعا اور اللہ پر بھروسا
علم پر عمل کی توفیق اللہ ہی دیتا ہے۔ اس کے لیے دعا کرنا:
"اللّٰهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا"
یعنی: "اے اللہ! جو تو نے سکھایا ہے، اس سے مجھے نفع دے، اور جو نفع دے وہ سکھا، اور میرے علم میں اضافہ فرما۔"
علم کا اصل حسن تب ظاہر ہوتا ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے۔ علم وہ چراغ ہے جو صرف جلنے سے نہیں، روشنی پھیلانے سے فائدہ دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علم کا اثر ہو، تو ہمیں عمل کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا۔ یہی علم سے عمل تک کا کامیاب سفر ہے۔
یقیناً! نیچے "علم سے عمل تک کا سفر" کے موضوع پر ایک خوبصورت تقریر تیار کی گئی ہے، جو آپ اسکول، کالج یا کسی سیمینار میں استعمال کر سکتے ہیں:
علم انسان کی پہچان ہے۔ یہ وہ نور ہے جو جہالت کی تاریکی کو ختم کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف علم حاصل کرنا کافی ہے؟
کیا صرف جان لینا ہی کامیابی ہے؟
ہرگز نہیں!
علم کا اصل مقصد تب پورا ہوتا ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے۔
ورنہ ایسا علم صرف ایک بوجھ ہے، جس کا فائدہ نہ خود کو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ:
"وہ لوگ کامیاب ہیں جو علم رکھتے ہیں"
بلکہ فرمایا:
> "الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ"
یعنی: "وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔"
یہاں "ایمان" علم کی علامت ہے اور "نیک عمل" اس علم کا نتیجہ۔
اسلام ہمیں صرف جاننے والا نہیں، کرنے والا بنانا چاہتا ہے۔
علم سے عمل تک کا سفر چند اصولوں سے ممکن ہوتا ہے:
1. نیت کی اصلاح – علم صرف امتحان میں پاس ہونے یا نوکری کے لیے نہیں، بلکہ اپنی زندگی سنوارنے کے لیے ہونا چاہیے۔
2. سمجھ کر سیکھنا – صرف یاد کرنا کافی نہیں، بات کو دل سے سمجھنا ضروری ہے۔
3. عمل کا عزم – روزمرہ زندگی میں سیکھے گئے اصولوں کو دھیرے دھیرے اپنانا۔
4. اچھا ماحول – وہ لوگ جو عمل کی ترغیب دیں، ان کی صحبت اختیار کرنا۔
5. اللہ سے مدد مانگنا – کیونکہ ہدایت اور عمل کی توفیق صرف وہی دیتا ہے۔
ہم روز سنتے ہیں کہ جھوٹ بُری بات ہے، مگر کیا ہم سچ بولتے ہیں؟
ہمیں معلوم ہے کہ نماز فرض ہے، مگر کیا ہم پابندی سے ادا کرتے ہیں؟
یہی وہ خلا ہے جو علم اور عمل کے درمیان ہے۔
ہمیں اب یہ خلا ختم کرنا ہے۔
ہمیں وہ بننا ہے جو جانتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں۔
آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ:
> "علم وہ خزانہ ہے جو عمل سے چمکتا ہے، اور عمل وہ روشنی ہے جو علم کو زندہ رکھتی ہے۔"
اللہ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
تیسرے خلیفہ راشد | جنت کی بشارت پانے والے
پیارے صحابہ پہ قربان جاؤں ❤️
حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد، بہت نرم دل، حیادار، اور سخی صحابی تھے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ نے ذُوالنُّورَین کا لقب دیا، کیونکہ آپ نے نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں سے نکاح کیا۔
🌿 ابتدائی زندگی:
قریش کے بڑے اور مالدار گھرانے سے تعلق تھا۔
تجارت میں کامیاب اور خوش اخلاق نوجوان تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام قبول کیا۔
❤️ رسول اللہ ﷺ کے بہت محبوب:
آپ نے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ کی۔
جب غزوہ تبوک کے موقع پر لشکر کو سامان کی ضرورت تھی، تو آپ نے سو اونٹ سامان سمیت پیش کیے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عثمان جو آج کے بعد کچھ بھی کرے، اس پر کوئی پکڑ نہیں۔"
🕌 دین کے بڑے بڑے کارنامے:
1. مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔
2. بئرِ رومہ (کنواں) خرید کر مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دیا۔
3. قرآن کریم کو ایک ہی لہجے پر جمع کروا کر محفوظ کروایا۔
آج جو قرآن دنیا بھر میں ہے، وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کاوش کا نتیجہ ہے۔
👑 خلافت اور شہادت:
آپ نے 12 سال خلافت کی۔
اسلام بہت دور دور تک پھیل گیا۔
آپ نے کبھی بیت المال سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا، بلکہ اپنا مال امت پر خرچ کیا۔
فتنہ کے دور میں آپ نے خون خرابہ سے بچنے کے لیے خود قربانی دی لیکن تلوار نہ اٹھائی۔
قرآن پڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔
✨ سبق:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے:
حیا اور سخاوت بہت عظیم صفات ہیں۔
دین کے لیے مال خرچ کرنا جنت کا راستہ ہے۔
دین کی خدمت خاموشی سے، اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔
📌 پیارے بچو! کیا ہم بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کے دین سے محبت کریں گے؟ ان شاءاللہ!
🕌 آئیں اُن کے نقش قدم پر چلیں، قرآن سے محبت کریں، اور دین کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کریں
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں...! ✍🏻
"یہ بچہ صرف حفظ قرآن نہیں کر رہا… یہ ایک شخصیت بن رہا ہے!"
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم بچے کو حفظ القرآن کے لیے مدرسے میں داخل کروا کر یا عام اسکولنگ کے لیے اسکول میں داخل کروا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہمارا کام ختم، قاری صاحب یا ٹیچر جانیں اور بچہ جانیں۔
سر دست، میں صرف حفظ قرآن پر بات کروں گا۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بچہ صرف قرآن حفظ نہیں کر رہا، وہ اپنے اساتذہ سے اخلاق اور کردار سیکھ رہا ہے، ایک کردار بن رہا ہے، اعتماد، عزت نفس اور ذہنی سکون یا بے سکونی ڈویلپ کر رہا ہے۔
اور افسوس… یہی وہ مقام ہے جہاں ہم والدین، اساتذہ اور ادارے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو مارنا، ڈانٹنا، اور سختی کرنا تربیت کا جزو لازم سمجھا جاتا ہے۔
مدرسے ہوں یا اسکول — جگہ بدلتی ہے، لیکن ہمارے مزاج نہیں بدلتے۔
جبکہ اللہ کے محبوب نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بچوں کو مارنا تربیت نہیں… بلکہ محبت، شفقت اور نرمی ہی اصل تربیت ہے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے، اور حضرت حسینؓ (اس وقت چھوٹے بچے تھے) آ کر آپ ﷺ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے سجدہ لمبا کر دیا تاکہ بچہ کھیلتا رہے اور گر نہ جائے۔ صحابہ کرامؓ پریشان ہوئے کہ سجدہ اتنا طویل کیوں ہو گیا، لیکن بعد میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا، اور میں نے ناپسند کیا کہ میں جلدی کروں اور اسے گرا دوں۔"
[مسند احمد: 17137، سنن نسائی: 1141]
رحمتِ عالم ﷺ کی نماز جیسی عظیم عبادت میں بھی بچوں کی خوشی اور تحفظ کو اہمیت دینا ہمیں سکھاتا ہے کہ شفقت اور مہربانی، تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ، جو صرف 10 سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے، فرماتے ہیں:
"میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، لیکن کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا: اُف۔ نہ ہی کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا۔"
[صحیح بخاری: 6038، صحیح مسلم: 2309]
یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ تربیت سختی سے نہیں بلکہ محبت، صبر اور حسنِ اخلاق سے ہوتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا…؟
کہ ہر بچہ حفظ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
کہ ہر استاد سکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔
کہ ہر ادارہ بچے کی شخصیت سنوارنے کے لائق نہیں ہوتا۔
بلکہ بہت سے اساتذہ اور ادارے چاہے مدارس ہوں یا اسکول، بچوں کی شخصیت تباہ کردیتے ہیں۔
پھر بھی ہم آنکھیں بند کرکے بچے کو کسی بھی ادارے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کبھی قاری صاحب کے جن کو خود شدید تربیت کی ضرورت ہے، کبھی مدرسے کے جس کو احسان کے درجے پر مبنی پروسیسز کی ضرورت ہے، اور کبھی اپنے ہی خوابوں کے! جو ہم اپنے بچوں سے پورے کروانا چاہتے ہیں ل۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ…
بچے کے اساتذہ کا مزاج کیسا ہے؟
جس مدرسے یا اسکول میں بچہ جارہا ہے اس کا ماحول کیسا ہے؟
حفظ کے پروسیس میں بچے کی دلچسپی کتنی ہے؟
ادارے میں اساتذہ کی مستقل تربیت کا کیا اہتمام ہے؟
اساتذہ کی مالی حالت کیا ہے؟
اساتذہ کی اخلاقی حالت کیا ہے؟
اساتذہ کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟
کہیں بچہ اندر ہی اندر ٹوٹ تو نہیں رہا؟
کہیں وہ قرآن کو بوجھ تو نہیں سمجھنے لگا؟
کہیں وہ قرآن کا حافظ تو بن رہا ہے لیکن عاشق نہیں بن رہا؟
یاد رکھیے، دین کا کوئی بھی شعبہ ہو۔۔۔
ادارے، مدارس، اسکول، تب تک قابلِ عمل اور مؤثر نہیں بن سکتا جب تک اس کی بنیاد مضبوط اور واضح وژن، مسلسل تربیت، شفقت، اور مستقل بہتری پر نہ رکھی جائے۔
(یمین الدین احمد)
Subscribe to:
Comments (Atom)





