Monday, 28 July 2025

والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں

والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں...! ✍🏻 "یہ بچہ صرف حفظ قرآن نہیں کر رہا… یہ ایک شخصیت بن رہا ہے!" ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم بچے کو حفظ القرآن کے لیے مدرسے میں داخل کروا کر یا عام اسکولنگ کے لیے اسکول میں داخل کروا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہمارا کام ختم، قاری صاحب یا ٹیچر جانیں اور بچہ جانیں۔ سر دست، میں صرف حفظ قرآن پر بات کروں گا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بچہ صرف قرآن حفظ نہیں کر رہا، وہ اپنے اساتذہ سے اخلاق اور کردار سیکھ رہا ہے، ایک کردار بن رہا ہے، اعتماد، عزت نفس اور ذہنی سکون یا بے سکونی ڈویلپ کر رہا ہے۔ اور افسوس… یہی وہ مقام ہے جہاں ہم والدین، اساتذہ اور ادارے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کو مارنا، ڈانٹنا، اور سختی کرنا تربیت کا جزو لازم سمجھا جاتا ہے۔ مدرسے ہوں یا اسکول — جگہ بدلتی ہے، لیکن ہمارے مزاج نہیں بدلتے۔ جبکہ اللہ کے محبوب نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بچوں کو مارنا تربیت نہیں… بلکہ محبت، شفقت اور نرمی ہی اصل تربیت ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے، اور حضرت حسینؓ (اس وقت چھوٹے بچے تھے) آ کر آپ ﷺ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے سجدہ لمبا کر دیا تاکہ بچہ کھیلتا رہے اور گر نہ جائے۔ صحابہ کرامؓ پریشان ہوئے کہ سجدہ اتنا طویل کیوں ہو گیا، لیکن بعد میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا، اور میں نے ناپسند کیا کہ میں جلدی کروں اور اسے گرا دوں۔" [مسند احمد: 17137، سنن نسائی: 1141] رحمتِ عالم ﷺ کی نماز جیسی عظیم عبادت میں بھی بچوں کی خوشی اور تحفظ کو اہمیت دینا ہمیں سکھاتا ہے کہ شفقت اور مہربانی، تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ، جو صرف 10 سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے، فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، لیکن کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا: اُف۔ نہ ہی کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا۔" [صحیح بخاری: 6038، صحیح مسلم: 2309] یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ تربیت سختی سے نہیں بلکہ محبت، صبر اور حسنِ اخلاق سے ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا…؟ کہ ہر بچہ حفظ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ کہ ہر استاد سکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ کہ ہر ادارہ بچے کی شخصیت سنوارنے کے لائق نہیں ہوتا۔ بلکہ بہت سے اساتذہ اور ادارے چاہے مدارس ہوں یا اسکول، بچوں کی شخصیت تباہ کردیتے ہیں۔ پھر بھی ہم آنکھیں بند کرکے بچے کو کسی بھی ادارے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کبھی قاری صاحب کے جن کو خود شدید تربیت کی ضرورت ہے، کبھی مدرسے کے جس کو احسان کے درجے پر مبنی پروسیسز کی ضرورت ہے، اور کبھی اپنے ہی خوابوں کے! جو ہم اپنے بچوں سے پورے کروانا چاہتے ہیں ل۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ… بچے کے اساتذہ کا مزاج کیسا ہے؟ جس مدرسے یا اسکول میں بچہ جارہا ہے اس کا ماحول کیسا ہے؟ حفظ کے پروسیس میں بچے کی دلچسپی کتنی ہے؟ ادارے میں اساتذہ کی مستقل تربیت کا کیا اہتمام ہے؟ اساتذہ کی مالی حالت کیا ہے؟ اساتذہ کی اخلاقی حالت کیا ہے؟ اساتذہ کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ کہیں بچہ اندر ہی اندر ٹوٹ تو نہیں رہا؟ کہیں وہ قرآن کو بوجھ تو نہیں سمجھنے لگا؟ کہیں وہ قرآن کا حافظ تو بن رہا ہے لیکن عاشق نہیں بن رہا؟ یاد رکھیے، دین کا کوئی بھی شعبہ ہو۔۔۔ ادارے، مدارس، اسکول، تب تک قابلِ عمل اور مؤثر نہیں بن سکتا جب تک اس کی بنیاد مضبوط اور واضح وژن، مسلسل تربیت، شفقت، اور مستقل بہتری پر نہ رکھی جائے۔ (یمین الدین احمد)

No comments:

Post a Comment