History Fact Founder – تاریخ کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ایک منفرد ویب سائٹ دنیا کی تاریخ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا، کیوں ہوا، اور اس کے اثرات آج تک کیسے قائم ہیں۔ History Fact Founder ایسی ہی ایک منفرد اردو ویب سائٹ ہے جو تاریخ کے بھولے بسرے واقعات، حیران کن حقائق، عظیم شخصیات، جنگوں، سلطنتوں، ایجادات، اور تاریخی ثقافتوں کو دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ نہ صرف تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ تحقیق شدہ، مستند اور قابلِ اعتبار حوالوں کے
Saturday, 9 August 2025
ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ بچپن فاقوں میں گزرا، مگر جوانی میں قسمت نے یاوری کی، تجارت خوب چمکی، اور وہ بہت جلد شہر کے امیر ترین انسانوں میں شامل ہو گیا۔
شروع میں وہ شکر گزار تھا، زکات دیتا، مسافروں کی مدد کرتا، والدین کی خدمت کرتا۔
مگر جیسے جیسے دولت بڑھتی گئی، اُس کے دل میں حرص کا زہر بھی اترتا گیا۔
اب وہ کہتا:
"یہ کافی نہیں، فلاں کے پاس تین حویلیاں ہیں، میرے پاس دو ہی کیوں؟"
دن رات حساب کتاب، نئی زمین، نئے سودے، خزانے کی تجوریاں بھرنے کی فکر…
جب کوئی فقیر آتا، تو تاجر کہتا:
"ابھی میرے سارے سودے مکمل نہیں ہوئے، پھر دیکھوں گا۔"
ایک دن اس نے ایک پرانی زمین خریدی، جہاں کام کرتے مزدوروں کو زمین کے اندر ایک خزانے کا صندوق ملا — سونے، چاندی اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا۔
سب مزدور حیران ہوئے، خوشی سے شور مچایا۔
تاجر وہاں پہنچا، خزانے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں لالچ کے دیے جلنے لگے۔
اُس نے سب سے پہلے چِلّا کر کہا:
"یہ خزانہ میرا ہے! میری زمین ہے! کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے!"
اور پھر اس نے سب مزدوروں کو نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔
لیکن جیسے ہی اس نے صندوق کھولا، ایک دھواں سا نکلا… اور ایک پراسرار آواز گونجی:
"اے حرص کے بندے! یہ خزانہ تیرے امتحان کے لیے تھا، تیرے اعمال کے لیے نہیں!"
اتنا کہنا تھا کہ وہ زمین پر گر گیا — دل پر ہاتھ رکھا اور دم توڑ گیا۔
خزانے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے، اور لوگ کہتے ہیں کہ آج بھی رات کو وہاں سے ایک آہ سنائی دیتی ہے:
"بس تھوڑا اور… بس تھوڑا اور…"
حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔حرص انسان کو نہ شکر گزار بننے دی
Sunday, 3 August 2025
ایک شیرنی کا مالک سینہ تان کے چلتا ھے سوچو چار شیرنیاں رکھنے والا کتنا بہادر ہوگا😂
چار عدد کا کمال"""""""
ایک شیرنی کا مالک سینہ تان کے چلتا ھے سوچو چار شیرنیاں رکھنے والا کتنا بہادر ہوگا😂
پاکستان کے چار صوبے ہیں ہر صوبے سے ایک شیرنی ہو تو قوم میں اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم ہوجائے یوں لسانیت و قوم پرستی جڑ سے اُکھڑ جائے گی😂
موسم چار ہیں ایک شیرنی بہار کی طرح ہو ایک خزاں کی طرح ایک گرمی جیسی اور ایک سردی جیسی تاکہ ایک ہی گھر میں جنت کا مزہ ملے☺
چار سمتیں ہیں ایک شیرنی آگے ہو ایک پیچھے ایک دائیں ایک بائیں جانب ہو تاکہ لومڑیاں دور رہیں😳
بیوی ویسے بھی ایمان کی محافظہ ہوتی ہے تو کیسا مضبوط و محفوظ ایمان ہوگا کہ اگر چاروں جانب محافظ ہوں☺
انسان چار چیزوں سے مرکب ہے آگ"ہوا"پانی"مٹی
چار بیویاں اِن چاروں جیسی ہوں ایک آگ سی جو جلا دے ایک پانی سے جو بجھا دے ایک ہوا سے جو اڑا دے ایک مٹی سے جو دفنا دے😂😜😂
اعضاء اربعہ دو ہاتھ دو پاؤں بھی کل چار ہیں
ایک بیوی ایک ہاتھ دبائے دوسری دوسرا ہاتھ تیسری ایک پاؤں کی مالش کرے چوتھی دوسرے پاؤں کی مالش کرے
یوں بندہ پرسکون رہے😘😍😘
اصولِ دین چار ہیں قرآن"سنت"اجماع"قیاس
ایک بیوی قرآن کی ماہرہ ہو دوسری حدیث کی عالمہ تیسری اجماعِ امت کی چوتھی قیاس و عقل کی ماہرہ ہو
یوں اولاد محدث و فقیہ پیدا ہوں گے☺
فقہ چار ہیں حنفی شافعی مالکی حنبلی
تو ایک حنفیہ ہو دوسری شافعیہ تیسری مالکیہ چوتھی حنبلیہ تاکہ اصول و فروع ایک چھت تلے جمع ہوں☺
طریقت کے سلسلے بھی چار ہیں چشتی سہروردی نقشبندی قادری
بیویاں بھی چار ہوں
قادریہ"چشتیہ"نقشبندیہ"سہروردیہ
تاکہ ایک ہی گھر میں مراقبہ و محاسبہ اور فیض عام ہو جائے😍😘
لیکن یہ سب تب کریں جب شوقِ شہادت ہو😂😂
رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاواقعہ یقینابہت ہی اندوہناک سانحہ تھا حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ
حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ🥺❤🩹
رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاواقعہ یقینابہت ہی اندوہناک سانحہ تھا،جس کی وجہ سے تمام مدینہ شہرمیں ہرجانب رنج والم کی فضاء چھائی ہوئی تھی …ہرکوئی غم کے سمندر میں ڈوباہواتھا…یہی کیفیت حضرت بلال بن رباح ؓ کی بھی تھی …اسی کا یہ اثرتھاکہ رسول اللہ ﷺ کے بعداب انہوں نے مسجدِنبوی میں اذان دینے کاوہ سلسلہ ترک کردیا…کیونکہ دورانِ اذان جب وہ ’’ أشْہَُدأنّ مُحَمّداً رَسُولُ اللّہ‘‘پرپہنچتے توبہت اداس ہوجاتے،آوازگلوگیرہوجاتی…اورتب ان کیلئے اذان مکمل کرنابہت دشوار ہو جاتا۔
رسول اللہ ﷺ کے بعداب مدینہ میں بلال بن رباح ؓ کادل بھی نہیں لگتاتھا،یہی وجہ تھی کہ آخرانہوں نے یہ فیصلہ کیاکہ ملکِ شام میں جواسلامی فوج رومیوں کے خلاف برسرِ پیکارہے ٗ میں بھی وہاں چلاجاؤں ،اوراب اپنی باقی زندگی ان سپاہیوں کے شانہ بشانہ بس اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروقف کردوں …
چنانچہ اس بارے میں حضرت بلال ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اولین جانشین اور خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے اجازت چاہی،جس پرحضرت ابوبکرؓنے اصرارکیاکہ:’’بلال!آپ ہمیں چھوڑکرمت جائیے‘‘لیکن بلالؓ جانے پر مُصر تھے، دونوں طرف سے اصرارکایہ سلسلہ چلتارہا…آخرحضرت بلال ؓنے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’اگرآپ اس وجہ سے مجھے جانے کی اجازت نہیں دے رہے کہ آپ نے مجھے مکہ میں اُمیہ سے خریدکرآزادکیاتھا…اوراپنے اسی احسان کی وجہ سے آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی بات مانوں …تب ٹھیک ہے ،میں حاضرہوں … اور اگر آپ نے مجھے محض اللہ کی رضاکی خاطرآزادکیاتھا…تومیری آپ سے گذارش ہے کہ آپ مجھے مت روکئے ، مجھے جانے کی اجازت دے دیجئے‘‘
حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جب بلالؓ کی زبانی یہ بات سنی… توانہیں مدینہ سے ملکِ شام چلے جانے کی اجازت دے دی۔
٭چنانچہ حضرت بلال بن رباح ؓ مدینہ منورہ سے ملکِ شام منتقل ہوگئے، اوروہاں اسلامی لشکرمیں شامل ہوکراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرجدوجہدمیں مشغول ومنہمک ہوگئے۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا،اسی طرح اب ملکِ شام میں بھی سبھی لوگ دل وجان سے ان کی عزت کیاکرتے تھے، لیکن بلالؓ ہمیشہ یہی کہاکرتے : اِنّمَا أنَا عَبدٌ حَبَشِيٌّ ، اِبنُ أَمَۃٍ سَوْدَاء … یعنی’’میں تومحض ایک حبشی غلام ہوں ،ایک سیاہ فام کنیزکابیٹا…‘‘
دراصل یہ تومحض حضرت بلال ؓ کی طرف سے تواضع اورعجزوانکسارتھا…ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام میں چہروں کی سفیدی یاسیاہی کی توکوئی حیثیت نہیں ہے،بلکہ اصل چیزتودلوں کی سفیدی یاسیاہی ہے…بالفاظِ دیگراصل اعتباراعمال کی سفیدی یاسیاہی کا ہے…جبکہ چہروں کی سفیدی یاسیاہی دینِ اسلام میں قطعاًکوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
٭شب وروزکایہ سفرجاری رہا…خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے انتقال کے بعدخلیفۂ دوم کی حیثیت سے حضرت عمربن خطاب ؓ نے ذمہ داریاں سنبھالیں ،تب اسلامی فتوحات کاسلسلہ بہت زیادہ وسعت اختیارکرگیا،گویامشرق ومغرب میں فتوحات کاایسا طاقتورسیلاب تھاجس کے آگے بندباندھناکسی کے بس کی بات نہیں تھی…
انہی دنو ں ۱۷ھ میں سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ(۱) کی زیرِقیادت فتحِ بیت المقدس کاانتہائی یادگاراورتاریخی واقعہ پیش آیا،اس موقع پرمسلمانوں اور رومیوں کے مابین ایک معاہدے کے مطابق اب بیت المقدس شہرکی چابی مسلمانوں کے حوالے کی جانی تھی،اس موقع پررومیوں کے بادشاہ نے یہ شرط رکھی کہ’’ اس مقصدکیلئے مسلمانوں کے خلیفہ (حضرت عمرؓ)خودبیت المقدس آئیں ،ہم چابی فقط انہی کے حوالے کریں گے …کسی اورکوہم یہ چابی نہیں دے سکتے‘‘
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ نے بذریعۂ مکتوب حضرت عمربن خطاب ؓ کواس صورتِ حال سے مطلع کیا،تب ان کایہ خط موصول ہونے پرمدینہ میں حضرت عمربن خطاب ؓ نے اکابرصحابۂ کرام سے اس بارے میں مشاورت کی ۔
اس موقع پربعض حضرات نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ’’آپ کووہاں نہیں جاناچاہئے، کیونکہ رومیوں نے ہم مسلمانوں کومحض تنگ کرنے کی خاطرنفسیاتی حربے کے طورپریہ شرط رکھی ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ خودبیت المقدس آئیں …حقیقت تویہ ہے کہ رومی جب ہم سے شکست کھاچکے ہیں ٗتوکیاوہ اس بات کونہیں جانتے کہ شہرکی چابی تو ہم ویسے بھی ان سے چھین سکتے ہیں کہ جب ہم یہ شہرہی فتح کرچکے ہیں تواب چابی کی کیا حیثیت ہے…؟‘‘
جبکہ اس موقع پرحضرت علی بن ابی طالب ؓ نے یہ مشورہ دیاکہ’’آپ کووہاں ضرورجاناچاہئے ،کیونکہ اس طرح جذبۂ خیرسگالی بڑھے گا اوررومیوں کے ساتھ ہمارے آئندہ تعلقات پرخوشگواراثرات مرتب ہوں گے‘‘
تب حضرت عمربن خطاب ؓ نے حضرت علیؓکے مشورے کوپسندکرتے ہوئے بیت المقدس جانے کافیصلہ کرلیا…اورپھرمدینہ میں حضرت علیؓ کواپنانائب مقررکرنے کے بعد وہاں سے بیت المقدس کی جانب محوِسفر ہوگئے۔
طویل سفرطے کرنے کے بعدحضرت عمرؓجب بیت المقدس پہنچے تووہاں اسلامی فوج کے سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح ٗ نیزدیگرکبارِصحابہ ٗ اہم شخصیات اورمختلف سپہ سالاروں سے ملاقات ہوئی ،مثلاً معاذبن جبل ٗ خالدبن ولید ٗ یزیدبن ابی سفیان ٗ شرحبیل بن حسنہ ٗ وغیرہ ٗ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اس موقع پر حضرت عمربن خطاب ؓ کی نگاہیں دائیں بائیں کسی کوتلاش کرتی رہیں ، کسی نے استفسارکیاکہ ’’اے امیرالمؤمنین!کیاآپ کوکسی کی تلاش ہے؟‘‘حضرت عمرؓ نے جواب دیا’’ہاں …بلال کہاں ہیں ؟‘‘ اورپھرحضرت بلالؓ بھی وہاں پہنچے ، ملاقات ہوئی۔ اس کے بعدجب نمازکاوقت ہواتوسب نے اصرارکیاکہ’’آج بلال اذان دیں ‘‘لیکن حضرت بلالؓ نے معذرت کردی۔آخرخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب ؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’اے بلال!فتحِ مکہ کے یادگاراورعظیم الشان موقع پررسول اللہ ﷺ نے دس ہزارافرادپرمشتمل لشکرمیں سے صرف آپ کواذان کیلئے منتخب فرمایاتھا…وہ یادگارترین موقع تھا…اورآج یہ فتحِ بیت المقدس کاواقعہ بھی یادگارترین موقع ہے…لہٰذاہم سب کی یہی خواہش ہے کہ آج بھی آپ ہی اذان دیں …تب حضرت بلال ؓ آمادہ ہوگئے،اوراذان دی…حضرت عمربن خطاب ؓ ٗ ودیگراکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جواس موقع پروہاں موجودتھے،آج سالہا سال کے بعدجب انہوں نے حضرت بلالؓ کی پُرسوزاوردل نشیں آوازمیں ’’اذان‘‘سنی ٗ توانہیں رسول اللہ ﷺ کامبارک زمانہ یادآگیا…اورتب وہ سبھی آبدیدہ ہوگئے۔
شب وروزاورصبح وشام کایہ سفرجاری رہا…حضرت بلال بن رباح ؓ بدستور ملکِ شام میں ہی مقیم رہے،اللہ کے دین کی سربلندی کے جذبے سے سرشار…مسلسل اسلامی فوج میں خدمات انجام دیتے رہے…آخر ۲۰ھ میں وہیں دمشق میں مختصرعلالت کے بعداس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے اوراپنے اللہ سے جاملے…
یوں وہ آوازہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی کہ جب ابتدائے اسلام میں ’’اَحد،اَحد‘‘کانعرہ اسی آوازمیں بلندہواکرتاتھاتومکہ شہرمیں بڑے بڑے ظالم وجابراورمغرورومتکبرسردارانِ قریش کے دلوں پرلرزہ طاری ہوجایاکرتاتھا،اورجب رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں مدینہ میں یہی آوازاذان کی صورت میں بلندہوتی اورمدینہ کی مبارک فضاؤں میں گونجتی تواہلِ ایمان کے دلوں کوگرمادیاکرتی تھی،فتحِ مکہ کے یادگارموقع پربھی یہی آوازاذان بن کرفضاء میں بلندہوئی تھی…اورپھرفتحِ بیت المقدس کے یادگارموقع پربھی یہی آوازاذان بن کرفضاء میں گونجی تھی…یہ مبارک آواز…اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے اس جلیل القدرصحابی حضرت بلال بن رباح ؓ کے درجات جنت الفردوس میں بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ ٗنیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت سے نوازیں
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے
اشفاق احمد کہتے ہیں ........
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا- ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے بابا جی سے کہا کچھ دے الله کے نام پر-
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا-
وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا بابا جی کو-
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا ١٠ روپے بنا لئے ہیں تو دس روپے بڑے ہوتے تھے-
تو بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لئے ہیں تو اپنے دیتے میں سے کچھ دے-
تو اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں میں کہاں سے دوں؟
انھوں نے کہا، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہئے تو اس فقیر کے دل کو یہ بات لگی-
کہنے لگا اچھا-
وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے-
تو وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں- اور بھاگ کے لایا، اور آ کر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں- کہنے لگا ، لو آدھی آدھی کر لینا -
وہ بڑے حیران ہوئے میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے-
بڑی مہربانی بابا تیری، بڑی مہربانی-
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی- وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا-
تو میرے بابا جی نے کہا، " اوئے لکیا کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے، خوش ہو نچ کے وکھا- "
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے
Subscribe to:
Comments (Atom)