Saturday, 9 August 2025

ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔

ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ بچپن فاقوں میں گزرا، مگر جوانی میں قسمت نے یاوری کی، تجارت خوب چمکی، اور وہ بہت جلد شہر کے امیر ترین انسانوں میں شامل ہو گیا۔ شروع میں وہ شکر گزار تھا، زکات دیتا، مسافروں کی مدد کرتا، والدین کی خدمت کرتا۔ مگر جیسے جیسے دولت بڑھتی گئی، اُس کے دل میں حرص کا زہر بھی اترتا گیا۔ اب وہ کہتا: "یہ کافی نہیں، فلاں کے پاس تین حویلیاں ہیں، میرے پاس دو ہی کیوں؟" دن رات حساب کتاب، نئی زمین، نئے سودے، خزانے کی تجوریاں بھرنے کی فکر… جب کوئی فقیر آتا، تو تاجر کہتا: "ابھی میرے سارے سودے مکمل نہیں ہوئے، پھر دیکھوں گا۔" ایک دن اس نے ایک پرانی زمین خریدی، جہاں کام کرتے مزدوروں کو زمین کے اندر ایک خزانے کا صندوق ملا — سونے، چاندی اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا۔ سب مزدور حیران ہوئے، خوشی سے شور مچایا۔ تاجر وہاں پہنچا، خزانے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں لالچ کے دیے جلنے لگے۔ اُس نے سب سے پہلے چِلّا کر کہا: "یہ خزانہ میرا ہے! میری زمین ہے! کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے!" اور پھر اس نے سب مزدوروں کو نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے صندوق کھولا، ایک دھواں سا نکلا… اور ایک پراسرار آواز گونجی: "اے حرص کے بندے! یہ خزانہ تیرے امتحان کے لیے تھا، تیرے اعمال کے لیے نہیں!" اتنا کہنا تھا کہ وہ زمین پر گر گیا — دل پر ہاتھ رکھا اور دم توڑ گیا۔ خزانے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے، اور لوگ کہتے ہیں کہ آج بھی رات کو وہاں سے ایک آہ سنائی دیتی ہے: "بس تھوڑا اور… بس تھوڑا اور…" حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔حرص انسان کو نہ شکر گزار بننے دی

No comments:

Post a Comment