Tuesday, 29 July 2025

Session Jug and his moral story

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ مجھے مدت پہلے ایک سیشن جج ملے’ ان کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا’ میں نے ان سے حادثے کی وجہ پوچھی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ انہوں نے بتایا’ میں اپنی بیٹی کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیا’ وہاں موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے بیٹی کا بیگ کھینچ لیا’ میری بیٹی نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ موٹر سائیکل کے ساتھ گھسیٹنے لگی’ میں مدد کے لیے دوڑ کر گیا تو ڈاکو گھبراگئے اور انہوں نے گولی چلا دی’ ایک گولی میرے ہاتھ پر لگ گئی اور دوسری بیٹی کے سر پر’ بیٹی وہیں انتقال کر گئی جب کہ میرے ہاتھ کا زخم بگڑ گیا اور ڈاکٹر دو ماہ بعد ہاتھ کاٹنے پر مجبور ہو گئے’ وہ اس کے بعد دھاڑیں مار کر رونے لگے’ میں نے ان کی ڈھارس بندھائی تو انہوں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا ‘‘میں اپنی بیٹی یا اپنے ہاتھ کی وجہ سے نہیں رو رہا’ میں مجرموں کی وجہ سے رو رہا ہوں’ میں نے ملازمت کے زمانے میں صرف چند ہزار روپے کے لالچ میں بے شمار چوروں اور ڈاکوؤں کو چھوڑ دیا تھا’ مجھے روز محسوس ہوتا ہے مجھ پر گولی چلانے والا میرا ہی چھوڑا ہوا کوئی مجرم ہو گا’ یہ احساس مجھے اب جینے نہیں دیتا۔ مجھے کراچی میں ٹریفک پولیس کے ایک افسر سے ملاقات کا موقع ملا’ اس کی کہانی بھی انتہائی تکلیف دہ تھی’ اس کا خاندان سفر کر رہا تھا’ سڑک کی دوسری طرف سے گاڑی آئی اور ان کی گاڑی سے ٹکرا گئی’ یہ کار چھوٹی تھی’ یہ کھائی میں جا گری’ اس افسر کا پورا خاندان حادثے میں انتقال کر گیا’ اس کا خیال تھا میں پیسے لے کر ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا کرتا تھا’ میں سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی ہزار دو ہزار روپے لے لیا کرتا تھا’ مجھے محسوس ہوتا ہے میرے خاندان کو مارنے والا بھی میرا ہی کوئی لائسنس ہولڈر ہو گا یا پھر میں نے اسے چھوٹی بڑی غلطی کے بعد چھوڑ دیا ہو گا اور اس نے میرے پورے خاندان کو قتل کر دیا۔ مجھے اسی طرح تعلیمی بورڈ کا ایک سابق چیئرمین ملا’ اس کا خاندان کسی زیرتعمیر پل کے ستون کے نیچے آ کر مارا گیا تھا’ اس کا کہنا تھا میں نے سینکڑوں نالائق نوجوانوں کو میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہنچایا تھا چناں چہ ہو نہ ہو وہ پل میرے ہی کسی کلائنٹ نے بنایا ہوگا اور وہ میرے ہی خاندان پر گر گیا اور مجھے اسی طرح ایک دودھ فروش ملا’ اس کے تین بچے تھے اور تینوں جسمانی طور پر کم زور تھے’ مجھے اس نے بتایا میرے بچوں کو بچپن میں دودھ سے الرجی تھی’ یہ دودھ نہیں پی سکتے تھے جس کی وجہ سے ان کی گروتھ رک گئی’ میں نے اسے بتایا’ آج کل یہ بیماری لاعلاج نہیں ’ تم کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کر لیتے’ اس نے مسکرا کر جواب دیا’ جاوید صاحب دنیا کے پاس اس بیماری کا علاج ہو گا لیکن میرے بچے اس علاج سے ٹھیک نہیں ہو سکیں گے’ میں نے اس یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے ہول ناک کہانی سنائی’ اس کا کہنا تھا میرے پاس پچاس بھینسیں تھیں’ میں ان کا دودھ بیچتا تھا’ میں لالچ میں آگیا اور بھینسوں کو ٹیکے بھی لگانے لگا اور دودھ میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر (سرف) اور یوریا کھاد بھی ملانے لگا’ میں نے اس سے لاکھوں روپے کمائے لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بچوں کو دودھ سے الرجی کر دی اور میں انہیں اٹھا اٹھا کر پھرنے لگا’ میں جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ ہزاروں بچے آ جاتے تھے جنہیں میں یوریا اور سرف والا دودھ پلاتا رہا’ ان بچوں کاکیا بنا ہو گا؟ کیا وہ زندہ ہوں گے؟ اگر ہاں تو ان کے معدوں کی کیا صورت حال ہو گی چناں چہ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں میرے بچوں کا مرض لاعلاج ہے’ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے گناہوں کا نہیں اور میں گناہ گار ہوں۔ میں چند دن قبل ایک دوست کے دفتر گیا’ اس دن ان کے محکمے میں بھرتیاں چل رہی تھیں’ میرے دوست مجھے بتانے لگے اقرباء پروری کا یہ عالم ہے میرے پاس درجہ اول اور دوم کے لیے بھی وزیروں کی سفارشیں آ رہی ہیں’ انہوں نے اس کے بعد چٹوں کا پورا دستہ میرے سامنے رکھ دیا’ میں نے اپنے دوست کو گناہ جاریہ کی تھیوری سنائی اور اس کے بعد اس سے کہا تم اگر اپنے کسی سفارشی اور نااہل چپڑاسی کے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو تو پھر ساری نوکریاں ان چٹوں میں بانٹ دو اور اگر اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہتے ہو تو صرف اور صرف میرٹ پر فیصلہ کرو اور اہل لوگوں کو سلیکٹ کرو’ تم صدقہ جاریہ کا حصہ بن جاؤ گے اوران لوگوں اور ان کے خاندانوں کی دعائیں دہائیوں تک تمہارے خاندان کی حفاظت کریں گی’ میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ اس نے تمام چٹیں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیں اور پی اے کو بلا کر کہا ‘‘ہم کام یاب امیدواروں کی فہرست نہیں لگائیں گے’ تم ان سب کو دفتر بلاؤ گے اور ہم ان کی براہ راست جوائننگ لیں گے’’ پی اے نے گھبرا کر کہا ‘‘سر نیب’’ میرے دوست نے جواب دیا ‘‘میں اس صدقہ جاری کے لیے جیل جانے کے لیے بھی تیار ہوں’ Copy

No comments:

Post a Comment