Saturday, 2 August 2025

انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا

ساغر صدیقی 1928 انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا. گھر میں ہر طرف افلاس کا دور دورہ تھا۔ محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ‍ پڑھا. ان سے ہی پڑھا. ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور کنگھیاں بنانا سیکھا اور کام شروع کیا. لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے گیتوں کی فرمائش کی اور کامیابی ہوئی۔ 1952 کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ اس طرح وہ نشے کے عادی ہو گئے. لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کا پہلا مجموعہ کلام ایک ناشر نے ساغر کے اشعار سن سن کر جمع کرنے کے بعد چھپوایا تھا جس کا پہلا ایڈیشن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔۔۔لیکن اس ناشر نے ساری آمدن اپنی جیب میں ڈال لی. کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے او ر ایک بےخود ی و بےگانگی کی قیمت اداکرنے میں بے توقیرہوئیں. ان کی تصانیف میں ’زہر آرزو‘، ’غم بہار‘، شب آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوح جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘۔ ’’کلیات ساغر ‘‘ شامل ہیں۔ ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا اور ان کی وفات 19 جولائی 1974ء کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔ انھیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا. بزم کونین سجانے کے لئے آپ آئے شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ آئے —— زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں —— بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے —— ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے —— یاد رکھنا ہماری تُربت کو قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا —— ہائے یہ بیگانگی ، اپنی نہیں مجھ کو خبر ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں —— کہتے ہیں تیری زلفِ پریشاں کو زندگی اے دوست ! زندگی کی تمنا بُری نہیں —— ایک وعدہ ہے کسی کا ، جو وفا ہوتا نہیں ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں —— ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے —— میں بھی جنت سے نکالا ہوا اک بُت ہی تو ہوں ذوقِ تخلیق ! تجھے کیسے ستم آتے ہیں —— یوں چٹکتے ہیں شاخ پر غنچے جیسے اُن کے سلام آتے ہیں —— ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں —— ساغرؔ کسی کی یاد میں جب اشکبار تھے کتنے حسین دن تھے جہانِ خواب میں —— میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا —— یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں —— روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے —— متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں —— جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے —— کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں —— ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں —— آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا —— ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام

No comments:

Post a Comment