History Fact Founder – تاریخ کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ایک منفرد ویب سائٹ دنیا کی تاریخ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا، کیوں ہوا، اور اس کے اثرات آج تک کیسے قائم ہیں۔ History Fact Founder ایسی ہی ایک منفرد اردو ویب سائٹ ہے جو تاریخ کے بھولے بسرے واقعات، حیران کن حقائق، عظیم شخصیات، جنگوں، سلطنتوں، ایجادات، اور تاریخی ثقافتوں کو دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ نہ صرف تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ تحقیق شدہ، مستند اور قابلِ اعتبار حوالوں کے
Tuesday, 29 July 2025
ارطغرل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہیں, آپکی پیدائش
ارطغرل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہیں, آپکی پیدائش 1188 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھہ کتابیں 1281 بتاتی ہیں, آپ کے تین بیٹے تھے گوھر, شھریار اور عثمان اور آپکے اسی بیٹے نے 1291 یعنی ارطغرل اپنے والد کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارطغرل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارطغرل غازی رح رکھ کے گئے تھے….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا…
ارطغرل غازی کا خاندان وسطی ایشیاء سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتے تھے۔ آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذلجان, گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسط ایشیا Central Asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آیا تھا۔ منگولوں کی یلغار سے بچنے کے لئے جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی۔
1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین سربراہ بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے۔
اور قائی قبیلے کے سربراہ ارطغرل غازی بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے۔ پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے۔ 1232 جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے العزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارطغرل غازی نے العزیز سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھانجی حلیمہ سلطان سے شادی جس سے آپکے تین بیٹے ہوئے۔
آپ نے ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارطغرل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارطغرل غازی نے منگولوں کے ایک اہم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوگتائی خان کا Right hand تھا ,اوگتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوگتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد روندا تھا۔۔۔
اور پھر ارطغرل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سو گوت Sogut آئے قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہی تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا۔
سلطان علاو الدین کی وفات کے بعد ارطغرل غازی سلطان بن گئے سلجوک ریاست کے اور اسکی نسل سے جاکے سلطان محمد فاتح رح تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشنگوئی پوری ہوئی……
تاریخ میں ارطغرل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن افسوس کے ہماری نسل انکو جانتی ہی نہیں…
اسلام میں جتنے جنگجو گذرے ہیں جس نے کچھ نہ کچھ اسلام کے لیئے کیا ھے، ان کا ایک روحانی پہلو ضرور ہوتا ھے, ان کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی روحانی شخصت (ولی اللہ) ہوتی ہے جن کی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے۔
تاریخ اٹھا لیں اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے اور امت مسلمہ کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو ان کا کوئی نہ کوئی روحانی پہلو ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلیٰ علیہ والہ وسلم کے فیضان سے جن کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی وہ شیخ محی الدین ابن العربی رحمہ تھے جو اندلس سے ارطغرل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی خوبصورت حدیث شریف ہے کہ:
” اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور الله
ترجمہ:
مومن کی فراصت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
یہ کوئی جذباتی یا مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہ سب وہی سمجھ سکتا جسکو یہ روحانیت کا نور ملا ہو۔ اور جسکو یہ نور نہیں حاصل ہوا وہ اندھا ہے اسے کچھ سجھ نہیں آئے گا۔ جیسے لبرل سیکیولر برگیڈ۔
اللہ پاک ارطغرل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمت ہو ان پے…!!!!
آمین ثم آمین
Three moral Story
*تین بے مثال تحاریر*
*محل
*تین بے مثال تحاریر*
*محل سے کھنڈر تک __ سے کھنڈر تک __!!*
اندلس کے مسلم حکمرانوں میں سلطان عبدالرحمان ثالث بہت مشہور هے- وه 300هہ میں تخت سلطنت پر بیٹها اور 350 هہ میں بہتر سال کی عمر میں وفات پائی- اس کی ایک عسائی بیوی تهی جس کا نام زہرا تها- سلطان نے اپنی اس بیوی کے نام پر قرطبہ کے کنارے ایک شاندار محل تعمیر کیا اور اس کا نام الزہره رکها- چار میل لمبا اور تین میل چهوڑا یہ محل اتنا بڑا تها کہ اس کو قصر الزہره کے بجائے مدینتہ الزہره کہنے لگے- اس محل کی تعمیر 325 هہ میں شروع هوئی اور پچیس سال میں 350 هہ میں مکمل هوئی- المقری نے اس محل کی جو تفصیلات لکهی ہیں اس کے لحاظ سے یہ محل الف لیلہ کا کوئی طلسماتی شہر معلوم هوتا ہے۔
اس محل کے بنانے پر دس ہزار معمار، چار ہزار اونٹ اور خچر روزانہ کام کرتے تهے- اس میں 4316 برج اور ستون تهے- سنگ مر مر اور دوسرے بہت سے قیمتی سامان فرانس، ترکی، یونان، شام اور افریقہ کے ملکوں کے بادشاہوں نے بطور تحفہ دئے تهے- اس کے چهتوں میں سونے چاندی کا کام اس کثرت سے کیا گیا تها کہ دیکهنے والوں کی آنکهہ چمکتی تهی- اس محل کے انتظام اور نگرانی کے لئے 13750 ملازم مقرر تهے- اس کے علاوه 13382 غلام تهے- حرم سرا کے اندر چهہ ہزار عورتیں خدمت گزاری کے لئے حاضر رہا کرتی تهیں- سارا قصر باغات اور فواروں سے گلزار رہتا تها- یورپ اور دوسرے ملکوں کے سیاح کثرت سے اس کو دیکهنے کے لئے آتے رہتے تهے ۔
مگر اس عظیم محل کا انجام کیا هوا- 25سال میں موجوده معیار سے ایک کهرب روپیہ سے بهی زیاده میں بننے والا محل صرف پچاس سال میں ختم هو گیا- اندلس کے مسلم حکمرانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے عسائیوں نے ان کے اوپر قابو پا لیا اور ان کو شکست دے کر ان کے نام و نشان تک کو مٹا ڈالا، قرطبہ کا الزہره کهنڈر بنا دیا گیا- اس کے بعد اس پر زمانہ کی گرد پڑتی رہی- یہاں تک کہ وه نظروں سے غائب هو گیا- موجوده زمانہ میں اس مقام پر کهدائی کی گئی ہے- مگر کهدائی کرنے والوں کو وہاں ٹوٹی هوئی نالیوں کے سوا اور کچهہ نہیں ملا ۔
دنیا میں عیش و آرام کے نشانات کو مٹا کر خدا دکهاتا ہے کہ اس کی نظر میں یہاں کے عیش و آرام کی کوئی قیمت نہیں، مگر کوئی آدمی اس سے سبق نہیں لیتا- ہر بعد والا عین اسی مقام پر اپنا عیش خانہ بنانے میں مصروف هوجاتا ہے جہاں اس کے پیش رو کا عیش خانہ برباد هوا تها۔
( 📖 اسباق تاریخ ۔۔۔۔۔۔)
✍🏻
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ترکی کے ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺑﺘﺎ ﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺗﯿﻞ ﺍﮔﺮﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ، ﻣﮕﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﮯﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﮑﻢ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ ﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﭼﻞ ﮐﺮﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮﺷﯿﺦ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ : ﺍﺫﺍ ﺩﺏ ﻧﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺸﺠﺮ ﻓﮭﻞ ﻓﯽ ﻗﺘﻠﮧ ﺿﺮﺭ؟ "
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽﺿﺮﺭ ﮨﮯ؟ " ، ﺟﺐ ﺷﯿﺦ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﺎ : ﺍﺫﺍﻧﺼﺐ ﻣﯿﺰﺍﻥ ﺍﻟﻌﺪﻝ ﺍﺧﺬ ﺍﻟﻨﻤﻞ ﺣﻘﮧ ﺑﻼ ﻭﺟﻞ " ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﺗﺮﺍﺯﻭﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎں ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ " ، ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺩﯾﺎﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ !
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺁﺳﭩﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺩﺍﺭ ﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯﺟﮩﺎﺩ ﯼ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﮯ ﻣﮕﺮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺴﺪﺧﺎﮐﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﻻیا گیا، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺠﮩﯿﺰ ﻭ ﺗﮑﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥﺁﭖ ﮐﺎ ﻭﺻﯿﺖ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﮭﯽﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻭ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧﮨﯿﺮﮮ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺍ ﮨﻮﺍ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﯽﻣﯿﮟ ﺩﻓﻨﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﺍ،ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺱﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺘﻮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺛﺒﻮﺕﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺧﻼﻑﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ، ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﯿﺦﺍﻻﺳﻼﻡ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﻮﺩ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺳﺘﯽ ﻣﻔﺘﯽ ﺗﮭﮯ ﺭﻭ ﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ :ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﯾﮧ ﺗﮭﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯﺧﻼﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﯾﮧ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﺎﺯﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺑﺎﻭ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﮐﻮ ﺩﮨﺮﺍﻭ ﺍﻭﺭ اسلام ﮐﮯ نظام کے ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ محنت کریں
بحوالہ : ( تاریخ ترکیہ ).
منقول۔"
✍🏻
*دنیا میں کوئی کسی کا راز دار نہیں __!!* 🩵
ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا ۔ اُسے کبھی کسی نے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا ۔
ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی ، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے ، لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا ، آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک شرط پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا ۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی ۔ بادشاہ نے بتایا کہ ،
اُس کے سر پر ایک سینگ ہے ، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ !"
اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے ۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا ۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے ۔
وزیر بہت سمجھدار تھا ، وہ جھٹ سے بولا ، "بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ آپکے راز کو چھپا کر رکھے ۔ لہٰذا جتنی سزا کا حقدار میں ہوں اُتنی آپکو بھی ملنی چاہیے ۔ ۔ !"
میرے عزیز دوستو ! زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر جب نکلتے ہیں تو دو کام ہوتے ہیں ۔
◘ پہلا یہ کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے ۔ چاہے لاکھ پچھتاوے کے ہاتھ ملو ۔
◘ اور دوسرا یہ کہ وہ پھر جہاں جہاں سے گزرتے ہیں اپنی شدت اور قوت کے مطابق زخم لگاتے جاتے ہیں ۔ جس کا دوش ہم اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں دے سکتے...!!
#بےمثال_تحاریر
پھلوں کے فوائد اور نقصانات
پھلوں کے فوائد اور نقصانات
قدرت نے ہر پھل میں خاص غذائیت اور شفاء رکھی ہے، لیکن ہر پھل کا صحیح استعمال جاننا بھی ضروری ہے۔ آئیے مختلف پھلوں کے اہم فوائد اور ممکنہ نقصانات پر ایک نظر ڈالیں:
🍋 آم (Mango)
فوائد: زود ہضم، نیا خون بناتا ہے، جسم کو موٹا اور طاقتور کرتا ہے، دل، دماغ اور پھیپھڑوں کو تقویت دیتا ہے، دودھ کے ساتھ استعمال جسم کو قوت دیتا ہے۔
نقصانات: نہار منہ اور کھٹا آم نقصان دہ ہوتا ہے، بدہضمی اور گرمی پیدا کر سکتا ہے۔
🍎 سیب (Apple)
فوائد: دماغی اور جگر کی غذا، رنگت نکھارتا ہے، رخساروں میں سرخی لاتا ہے، خون پیدا کرتا ہے، دانت اور گردوں کے لیے مفید۔
نقصانات: بھاری اور دیر سے ہضم ہوتا ہے، زیادہ مقدار میں کھانے سے گیس یا اپھارہ ہو سکتا ہے۔
🍌 کیلا (Banana)
فوائد: مقوی، توانائی بخش، جسم کو موٹا کرتا ہے، خون پیدا کرتا ہے، وٹامنز سے بھرپور۔
نقصانات: کمزور معدے والے احتیاط کریں، زیادہ مقدار میں گیس یا اپھارہ کر سکتا ہے۔
🍊 مالٹا (Orange)
فوائد: خوش ذائقہ، خون بنانے والا، بدہضمی اور بخار میں مفید، ہاضم اور تازگی بخش۔
نقصانات: کھانسی اور زکام میں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
🍈 سنگترہ (Sweet Orange)
فوائد: معدہ صاف کرتا ہے، قبض دور کرتا ہے، جگر و دل کو تقویت دیتا ہے، سینے کی صفائی، بچوں کے لیے بہترین۔
نقصانات: بہت زیادہ استعمال سے سردی یا زکام ہو سکتا ہے۔
😋 خربوزہ (Melon)
فوائد: فرحت بخش، یرقان، قبض اور پیشاب کے مسائل میں مفید، ماں کے دودھ کی فراہمی میں مددگار۔
نقصانات: زیادہ مقدار گرمی اور گیس پیدا کر سکتی ہے۔
🥕 گاجر (Carrot)
فوائد: سرد تر، وٹامن A سے بھرپور، خون بناتی ہے، دل، دماغ، معدہ کو طاقت دیتی ہے، کئی شکلوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔
نقصانات: اگر بہت زیادہ مقدار میں کھائی جائے تو ہاضمہ متاثر ہو سکتا ہے۔
🍑 بیر (Jujube)
فوائد: خون صاف کرتا ہے، بینائی بہتر بناتا ہے، بھوک لگاتا ہے، ہاضم، پیاس بجھاتا ہے۔
نقصانات: بہت زیادہ استعمال سے قبض یا خشکی ہو سکتی ہے۔
🥝 شکر قندی (Sweet Potato)
فوائد: طاقتور، قابض، پھیپھڑوں کو تقویت دیتی ہے، جسمانی محنت کرنے والوں کے لیے بہترین۔
نقصانات: بھاری ہونے کے باعث سونف کے ساتھ استعمال بہتر ہوتا ہے۔
😋 سردا / خربوزہ خاص قسم (Musk Melon)
فوائد: دل، دماغ، گردے، مثانے کو تقویت دیتا ہے، پیشاب آور، جسم میں رطوبت بڑھاتا ہے۔
نقصانات: ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے بلغمی مزاج والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
🌳 جامن (Jamun)
فوائد: خون صاف کرتا ہے، دانت مضبوط کرتا ہے، بال گرنے سے روکتا ہے، مثانے کی کمزوری میں مفید۔
نقصانات: زیادہ مقدار میں قابض ہوتا ہے۔
🍑 خوبانی (Apricot)
فوائد: جسم کو طاقت دیتی ہے، قبض کشا، بخار، بواسیر، آنتوں کے کیڑے مارتی ہے۔
نقصانات: زیادہ استعمال پیٹ میں گرمی یا اپھارہ پیدا کر سکتا ہے۔
😋 شریفہ (Custard Apple)
فوائد: دل، دماغ کو طاقت دیتا ہے، خوش ذائقہ۔
نقصانات: دیر ہضم، اپھارہ پیدا کر سکتا ہے۔
🍒 لیچی (Lychee)
فوائد: پیاس بجھاتی ہے، دل و دماغ کے لیے فرحت بخش۔
نقصانات: بھاری پھل ہے، کم مقدار میں کھائیں۔
🍅 ٹماٹر (Tomato)
فوائد: بھوک بڑھاتا ہے، کھانے کو ہضم کرتا ہے، کچا ٹماٹر قبض کشا اور شوگر/موٹاپے کے مریضوں کے لیے مفید۔
نقصانات: زیادہ گھی والے کھانے کے ساتھ فائدہ کم ہو جاتا ہے، زیادہ استعمال سردی دے سکتا ہے۔
🍇 انگور (Grapes)
فوائد: طاقتور، قبض کشا، دماغ و آنکھوں کے لیے مفید، کمزور مریضوں کے لیے انگور کا رس بہترین۔
نقصانات: شوگر کے مریض زیادہ احتیاط سے استعمال کریں۔
🍐 ناشپاتی (Pear)
فوائد: دل، دماغ، جگر، معدہ کو طاقت دیتی ہے، قبض کشا، چھلکے سمیت کھانا زیادہ مفید۔
نقصانات: بہت ٹھنڈی تاثیر رکھتی ہے، بلغمی مزاج والوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔
🎋 گنا (Sugarcane)
فوائد: جسم کو موٹا کرتا ہے، پیشاب آور، پیٹ کی گرمی کم کرتا ہے، دانتوں سے چوسنا بہتر۔
نقصانات: بلغم/بادی مزاج والوں کے لیے مضر، رس دیر ہضم ہوتا ہے۔
🍍 انناس (Pineapple)
فوائد: دل، دماغ کو تقویت دیتا ہے، فرحت بخش، بے چینی دور کرتا ہے۔
نقصانات: ٹھنڈی تاثیر رکھنے کے سبب زیادہ مقدار نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
🍐 امرود (Guava)
فوائد: فرحت بخش، دل، دماغ اور معدے کو طاقت دیتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے۔
نقصانات: کھانے کے فوراً بعد کھانا مضر ہے، زیادہ مقدار میں قبض پیدا کرتا ہے۔
📌 خلاصہ:
ہر پھل اپنے اندر شفا کا خزانہ رکھتا ہے، مگر اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا ضروری ہے۔ مزاج، موسم، اور جسمانی کیفیت کے مطابق پھلوں کا انتخاب صحت مند زندگی کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔
Session Jug and his moral story
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
مجھے مدت پہلے ایک سیشن جج ملے’ ان کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا’ میں نے ان سے حادثے کی وجہ پوچھی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ انہوں نے بتایا’ میں اپنی بیٹی کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیا’ وہاں موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں نے بیٹی کا بیگ کھینچ لیا’ میری بیٹی نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ موٹر سائیکل کے ساتھ گھسیٹنے لگی’ میں مدد کے لیے دوڑ کر گیا تو ڈاکو گھبراگئے اور انہوں نے گولی چلا دی’ ایک گولی میرے ہاتھ پر لگ گئی اور دوسری بیٹی کے سر پر’ بیٹی وہیں انتقال کر گئی جب کہ میرے ہاتھ کا زخم بگڑ گیا اور ڈاکٹر دو ماہ بعد ہاتھ کاٹنے پر مجبور ہو گئے’
وہ اس کے بعد دھاڑیں مار کر رونے لگے’ میں نے ان کی ڈھارس بندھائی تو انہوں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے بتایا ‘‘میں اپنی بیٹی یا اپنے ہاتھ کی وجہ سے نہیں رو رہا’ میں مجرموں کی وجہ سے رو رہا ہوں’ میں نے ملازمت کے زمانے میں صرف چند ہزار روپے کے لالچ میں بے شمار چوروں اور ڈاکوؤں کو چھوڑ دیا تھا’ مجھے روز محسوس ہوتا ہے مجھ پر گولی چلانے والا میرا ہی چھوڑا ہوا کوئی مجرم ہو گا’ یہ احساس مجھے اب جینے نہیں دیتا۔ مجھے کراچی میں ٹریفک پولیس کے ایک افسر سے ملاقات کا موقع ملا’ اس کی کہانی بھی انتہائی تکلیف دہ تھی’ اس کا خاندان سفر کر رہا تھا’ سڑک کی دوسری طرف سے گاڑی آئی اور ان کی گاڑی سے ٹکرا گئی’ یہ کار چھوٹی تھی’ یہ کھائی میں جا گری’
اس افسر کا پورا خاندان حادثے میں انتقال کر گیا’ اس کا خیال تھا میں پیسے لے کر ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا کرتا تھا’ میں سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی ہزار دو ہزار روپے لے لیا کرتا تھا’ مجھے محسوس ہوتا ہے میرے خاندان کو مارنے والا بھی میرا ہی کوئی لائسنس ہولڈر ہو گا یا پھر میں نے اسے چھوٹی بڑی غلطی کے بعد چھوڑ دیا ہو گا اور اس نے میرے پورے خاندان کو قتل کر دیا۔ مجھے اسی طرح تعلیمی بورڈ کا ایک سابق چیئرمین ملا’ اس کا خاندان کسی زیرتعمیر پل کے ستون کے نیچے آ کر مارا گیا تھا’ اس کا کہنا تھا میں نے سینکڑوں نالائق نوجوانوں کو میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں پہنچایا تھا چناں چہ ہو نہ ہو وہ پل میرے ہی کسی کلائنٹ نے بنایا ہوگا اور وہ میرے ہی خاندان پر گر گیا اور مجھے اسی طرح ایک دودھ فروش ملا’
اس کے تین بچے تھے اور تینوں جسمانی طور پر کم زور تھے’ مجھے اس نے بتایا میرے بچوں کو بچپن میں دودھ سے الرجی تھی’ یہ دودھ نہیں پی سکتے تھے جس کی وجہ سے ان کی گروتھ رک گئی’ میں نے اسے بتایا’ آج کل یہ بیماری لاعلاج نہیں ’ تم کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کر لیتے’ اس نے مسکرا کر جواب دیا’ جاوید صاحب دنیا کے پاس اس بیماری کا علاج ہو گا لیکن میرے بچے اس علاج سے ٹھیک نہیں ہو سکیں گے’ میں نے اس یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے ہول ناک کہانی سنائی’
اس کا کہنا تھا میرے پاس پچاس بھینسیں تھیں’ میں ان کا دودھ بیچتا تھا’ میں لالچ میں آگیا اور بھینسوں کو ٹیکے بھی لگانے لگا اور دودھ میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر (سرف) اور یوریا کھاد بھی ملانے لگا’ میں نے اس سے لاکھوں روپے کمائے لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بچوں کو دودھ سے الرجی کر دی اور میں انہیں اٹھا اٹھا کر پھرنے لگا’ میں جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ ہزاروں بچے آ جاتے تھے جنہیں میں یوریا اور سرف والا دودھ پلاتا رہا’ ان بچوں کاکیا بنا ہو گا؟ کیا وہ زندہ ہوں گے؟ اگر ہاں تو ان کے معدوں کی کیا صورت حال ہو گی چناں چہ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں میرے بچوں کا مرض لاعلاج ہے’ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے گناہوں کا نہیں اور میں گناہ گار ہوں۔
میں چند دن قبل ایک دوست کے دفتر گیا’ اس دن ان کے محکمے میں بھرتیاں چل رہی تھیں’ میرے دوست مجھے بتانے لگے اقرباء پروری کا یہ عالم ہے میرے پاس درجہ اول اور دوم کے لیے بھی وزیروں کی سفارشیں آ رہی ہیں’ انہوں نے اس کے بعد چٹوں کا پورا دستہ میرے سامنے رکھ دیا’ میں نے اپنے دوست کو گناہ جاریہ کی تھیوری سنائی اور اس کے بعد اس سے کہا تم اگر اپنے کسی سفارشی اور نااہل چپڑاسی کے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو تو پھر ساری نوکریاں ان چٹوں میں بانٹ دو اور اگر اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی چاہتے ہو تو صرف اور صرف میرٹ پر فیصلہ کرو اور اہل لوگوں کو سلیکٹ کرو’ تم صدقہ جاریہ کا حصہ بن جاؤ گے اوران لوگوں اور ان کے خاندانوں کی دعائیں دہائیوں تک تمہارے خاندان کی حفاظت کریں گی’ میرے دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے’ اس نے تمام چٹیں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیں اور پی اے کو بلا کر کہا ‘‘ہم کام یاب امیدواروں کی فہرست نہیں لگائیں گے’ تم ان سب کو دفتر بلاؤ گے اور ہم ان کی براہ راست جوائننگ لیں گے’’ پی اے نے گھبرا کر کہا ‘‘سر نیب’’ میرے دوست نے جواب دیا ‘‘میں اس صدقہ جاری کے لیے جیل جانے کے لیے بھی تیار ہوں’
Copy
Monday, 28 July 2025
جب شوہر دوسروں کی باتوں میں آ کر بیوی سے بدگمان ہو جائے
جب شوہر دوسروں کی باتوں میں آ کر بیوی سے بدگمان ہو جائے…
ایک ایسی آزمائش… جو نہ صرف بیوی کی خودی کو کچل دیتی ہے، بلکہ پورے گھر کا سکون چھین لیتی ہے۔
"میں نے تو کچھ غلط نہیں کیا…
پھر وہ مجھ سے دور کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
کیا سچ میں میں اتنی بری ہوں… جتنی اُس کی ماں یا بہنیں کہتی ہیں؟"
یہ سوال وہ ہر عورت کرتی ہے جس کا شوہر اُس سے نہیں… کسی تیسرے کے بنائے ہوئے خیال سے بات کرتا ہے۔
یہ صرف بدگمانی نہیں…
یہ Gaslighting ہے —
یعنی عورت کو اس حد تک شک میں ڈال دینا کہ وہ اپنی نیت، اپنے رویے، حتیٰ کہ اپنے دل کی سچائی پر بھی یقین کھو بیٹھے۔
شوہر جب ماں، بہن، یا کسی اور فرد کی بات کو بغیر تحقیق کے حتمی سمجھ کر بیوی پر شک کرنے لگتا ہے…
تو وہ اصل میں اپنے گھر کی بنیاد میں زہر گھول دیتا ہے۔
🧠 نفسیاتی پہلو:
ایسی صورتحال میں عورت:
خود کو defend کرنے کی تھکن سے emotional shutdown کا شکار ہو جاتی ہے
ہر وقت اپنی غلطی تلاش کرتی ہے… چاہے وہ ہو بھی نہ
محبت کے لیے تڑپتی ہے، مگر "برا ثابت نہ ہونے" کی جنگ میں تنہا رہ جاتی ہے
یہی وہ وقت ہوتا ہے…
جب ایک عورت کا Self-worth ختم ہونے لگتا ہے
اور اُس کا یقین، شوہر سے پہلے — اپنے آپ سے ٹوٹنے لگتا ہے۔
اسلامی رہنمائی:
قرآن نے واضح فرمایا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ، إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ"
(سورۃ الحجرات: 12)
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔"
شوہر کا بغیر تحقیق، بیوی پر شک کرنا…
ایمان کے اس حسن کے خلاف ہے جو انسان کو ظن سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔
🛡️ عملی حل — بیوی کے لیے:
1️⃣ حدود متعین کریں:
اگر ساس، نند یا کوئی بھی آپ کے خلاف زہر گھول رہا ہے،
تو خاموشی نہیں… حکمت سے حد بندی کی ضرورت ہے۔
2️⃣ Soft Assertiveness اختیار کریں:
"میں آپ سے محبت کرتی ہوں، لیکن میں ہر بات کا الزام نہیں سن سکتی۔
میں چاہتی ہوں کہ ہم حقائق کی بنیاد پر بات کریں… نہ کہ صرف الزامات پر۔"
3️⃣ باتوں کے بجائے کردار سے جواب دیں:
لوگوں کی زبانوں سے نہیں…
آپ کا صبر، اخلاق، اور نرمی آپ کے حق میں گواہی دیں گے۔
4️⃣ روحانی قوت پیدا کریں:
تہجد میں اللہ سے کہیے:
"یا اللہ! میرے دل کو صبر دے، میرے شوہر کے دل میں حق کا نور پیدا فرما، اور میرے کردار کو میری سب سے بڑی دلیل بنا دے۔"
5️⃣ شخصی اعتماد بحال کریں:
یاد رکھیے —
آپ کا وجود صرف بیوی ہونے سے وابستہ نہیں،
آپ ایک مکمل انسان، عبد، اور باوقار مومنہ بھی ہیں۔
💫 یاد رکھیں:
عورت اگر اپنے رویے، سوچ اور دعا سے اللہ کو اپنا حمایتی بنا لے تو پھر دنیا کی کوئی سازش، کوئی بدگمانی… اُسے نہ گرا سکتی ہے، نہ مٹا سکتی ہے۔
📲 اگر آپ اس وقت ایسی کسی بدگمانی کا شکار ہیں…
تو Ideal Life Counseling آپ کی آواز ہے۔
جہاں نہ صرف آپ کو سنا جائے گا،
بلکہ آپ کو سمجھا بھی جائے گا۔
علم کے معنی: علم" عربی زبان کا لفظ ہے
علم کے معنی:
"علم" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: "جاننا"، "آگاہی حاصل کرنا"، یا "کسی شے کی حقیقت تک پہنچنا"۔ علم دراصل کسی چیز کو اس کی اصل حقیقت کے ساتھ جاننے کا نام ہے۔ یہ صرف الفاظ یاد کرنے کا عمل نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
علم کی وضاحت:
علم انسان کی عقل و شعور کو جلا بخشتا ہے۔ یہ انسان کو اندھی تقلید، جہالت اور گمراہی سے نکال کر آگاہی، روشنی اور فہم و فراست کی طرف لے جاتا ہے۔ علم صرف دنیوی معاملات تک محدود نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔
علم کا مقصد:
علم حاصل کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو پہچانے، دنیا کو بہتر طور پر سمجھے، اور خدا کی معرفت حاصل کرے۔ علم انسان کو اچھے اور برے میں فرق سکھاتا ہے، اسے مقصدِ حیات سے روشناس کراتا ہے اور ایسی زندگی گزارنے کی راہ دکھاتا ہے جو دوسروں کے لیے مفید ہو۔
علم کا مقصد صرف دنیاوی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی بہتری بھی ہے۔
اسلام میں علم کا مقصد:
اسلام نے علم کو بہت بلند مقام دیا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت "اقْرَأْ" (پڑھ) اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ علم اسلام کی بنیادوں میں شامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"
اور
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔"
اسلام میں علم کا اصل مقصد اللہ کی معرفت، نیک عمل، عدل، اور معاشرے کی اصلاح ہے۔ صرف وہ علم مفید ہے جو انسان کو رب کے قریب کرے، اس کے اخلاق کو سنوارے، اور دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہو۔
قرآن مجید میں بارہا غور و فکر، تدبر اور تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو خلیفۃُ اللہ بننے کے لائق بناتا ہے۔
اسلام میں علم صرف دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان کی اصلاح اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ ہمیں علم کو صرف امتحانات کی تیاری یا ملازمت کے لیے نہ سیکھنا چاہیے بلکہ اپنی شخصیت، معاشرہ اور آخرت سنوارنے کے لیے سیکھنا چاہیے۔ یہی علم کا حقیقی مقصد ہے۔
"علم سے عمل تک کا سفر کیسے ممکن ہوتا ہے؟"
یہ سوال نہ صرف فکری گہرائی رکھتا ہے بلکہ عملی زندگی میں کامیابی کی کنجی بھی اسی میں چھپی ہے۔
علم ایک قیمتی خزانہ ہے، مگر جب تک وہ عمل کی شکل اختیار نہ کرے، وہ صرف ایک ذخیرہ ہی رہتا ہے۔ علم کا اصل فائدہ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب وہ ہمارے کردار، اخلاق، اور فیصلوں میں جھلکے۔
یعنی:
> "علم وہ نہیں جو صرف ذہن میں ہو، بلکہ وہ ہے جو زندگی میں دکھائی دے۔"
1. نیت کی درستگی
علم حاصل کرنے کی نیت صرف ڈگری، شہرت یا دنیاوی فائدے کے لیے نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اصلاح کریں، دوسروں کے لیے فائدہ مند بنیں اور اللہ کی رضا حاصل کریں۔
2. سمجھ بوجھ پیدا کرنا
صرف رٹا لگانا علم نہیں، بلکہ علم کا مطلب ہے سمجھ کر سیکھنا۔ جب ہم کسی بات کو سمجھ لیتے ہیں تو اس پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
3. خود احتسابی (Self-Reflection)
خود سے یہ سوال کرنا:
کیا میں جو جانتا ہوں، اس پر عمل بھی کرتا ہوں؟
یہ سوال انسان کو اپنے علم کو عمل میں بدلنے کی طرف مائل کرتا ہے۔
4. تدریجی عمل
عمل ایک دن میں مکمل نہیں ہوتا۔ علم کو چھوٹے چھوٹے قدموں میں عمل میں لانا چاہیے۔ مثلاً اگر ہم نے سچ بولنے کی اہمیت پڑھی ہے، تو روزمرہ میں ایک سچائی کو اپنانا ابتدا ہو سکتی ہے۔
5. اچھے ماحول کا اثر
جو لوگ خود علم و عمل پر کاربند ہوں، ان کی صحبت انسان کو نیکی اور عمل کی طرف مائل کرتی ہے۔ ایسے دوست اور اساتذہ علم سے عمل کی راہوں کو آسان بناتے ہیں۔
6. دعا اور اللہ پر بھروسا
علم پر عمل کی توفیق اللہ ہی دیتا ہے۔ اس کے لیے دعا کرنا:
"اللّٰهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا"
یعنی: "اے اللہ! جو تو نے سکھایا ہے، اس سے مجھے نفع دے، اور جو نفع دے وہ سکھا، اور میرے علم میں اضافہ فرما۔"
علم کا اصل حسن تب ظاہر ہوتا ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے۔ علم وہ چراغ ہے جو صرف جلنے سے نہیں، روشنی پھیلانے سے فائدہ دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علم کا اثر ہو، تو ہمیں عمل کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا۔ یہی علم سے عمل تک کا کامیاب سفر ہے۔
یقیناً! نیچے "علم سے عمل تک کا سفر" کے موضوع پر ایک خوبصورت تقریر تیار کی گئی ہے، جو آپ اسکول، کالج یا کسی سیمینار میں استعمال کر سکتے ہیں:
علم انسان کی پہچان ہے۔ یہ وہ نور ہے جو جہالت کی تاریکی کو ختم کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف علم حاصل کرنا کافی ہے؟
کیا صرف جان لینا ہی کامیابی ہے؟
ہرگز نہیں!
علم کا اصل مقصد تب پورا ہوتا ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے۔
ورنہ ایسا علم صرف ایک بوجھ ہے، جس کا فائدہ نہ خود کو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ:
"وہ لوگ کامیاب ہیں جو علم رکھتے ہیں"
بلکہ فرمایا:
> "الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ"
یعنی: "وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔"
یہاں "ایمان" علم کی علامت ہے اور "نیک عمل" اس علم کا نتیجہ۔
اسلام ہمیں صرف جاننے والا نہیں، کرنے والا بنانا چاہتا ہے۔
علم سے عمل تک کا سفر چند اصولوں سے ممکن ہوتا ہے:
1. نیت کی اصلاح – علم صرف امتحان میں پاس ہونے یا نوکری کے لیے نہیں، بلکہ اپنی زندگی سنوارنے کے لیے ہونا چاہیے۔
2. سمجھ کر سیکھنا – صرف یاد کرنا کافی نہیں، بات کو دل سے سمجھنا ضروری ہے۔
3. عمل کا عزم – روزمرہ زندگی میں سیکھے گئے اصولوں کو دھیرے دھیرے اپنانا۔
4. اچھا ماحول – وہ لوگ جو عمل کی ترغیب دیں، ان کی صحبت اختیار کرنا۔
5. اللہ سے مدد مانگنا – کیونکہ ہدایت اور عمل کی توفیق صرف وہی دیتا ہے۔
ہم روز سنتے ہیں کہ جھوٹ بُری بات ہے، مگر کیا ہم سچ بولتے ہیں؟
ہمیں معلوم ہے کہ نماز فرض ہے، مگر کیا ہم پابندی سے ادا کرتے ہیں؟
یہی وہ خلا ہے جو علم اور عمل کے درمیان ہے۔
ہمیں اب یہ خلا ختم کرنا ہے۔
ہمیں وہ بننا ہے جو جانتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں۔
آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ:
> "علم وہ خزانہ ہے جو عمل سے چمکتا ہے، اور عمل وہ روشنی ہے جو علم کو زندہ رکھتی ہے۔"
اللہ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
تیسرے خلیفہ راشد | جنت کی بشارت پانے والے
پیارے صحابہ پہ قربان جاؤں ❤️
حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد، بہت نرم دل، حیادار، اور سخی صحابی تھے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ نے ذُوالنُّورَین کا لقب دیا، کیونکہ آپ نے نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں سے نکاح کیا۔
🌿 ابتدائی زندگی:
قریش کے بڑے اور مالدار گھرانے سے تعلق تھا۔
تجارت میں کامیاب اور خوش اخلاق نوجوان تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام قبول کیا۔
❤️ رسول اللہ ﷺ کے بہت محبوب:
آپ نے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ کی۔
جب غزوہ تبوک کے موقع پر لشکر کو سامان کی ضرورت تھی، تو آپ نے سو اونٹ سامان سمیت پیش کیے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عثمان جو آج کے بعد کچھ بھی کرے، اس پر کوئی پکڑ نہیں۔"
🕌 دین کے بڑے بڑے کارنامے:
1. مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔
2. بئرِ رومہ (کنواں) خرید کر مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دیا۔
3. قرآن کریم کو ایک ہی لہجے پر جمع کروا کر محفوظ کروایا۔
آج جو قرآن دنیا بھر میں ہے، وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کاوش کا نتیجہ ہے۔
👑 خلافت اور شہادت:
آپ نے 12 سال خلافت کی۔
اسلام بہت دور دور تک پھیل گیا۔
آپ نے کبھی بیت المال سے ذاتی فائدہ نہ اٹھایا، بلکہ اپنا مال امت پر خرچ کیا۔
فتنہ کے دور میں آپ نے خون خرابہ سے بچنے کے لیے خود قربانی دی لیکن تلوار نہ اٹھائی۔
قرآن پڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔
✨ سبق:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے:
حیا اور سخاوت بہت عظیم صفات ہیں۔
دین کے لیے مال خرچ کرنا جنت کا راستہ ہے۔
دین کی خدمت خاموشی سے، اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔
📌 پیارے بچو! کیا ہم بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کے دین سے محبت کریں گے؟ ان شاءاللہ!
🕌 آئیں اُن کے نقش قدم پر چلیں، قرآن سے محبت کریں، اور دین کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کریں
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں...! ✍🏻
"یہ بچہ صرف حفظ قرآن نہیں کر رہا… یہ ایک شخصیت بن رہا ہے!"
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم بچے کو حفظ القرآن کے لیے مدرسے میں داخل کروا کر یا عام اسکولنگ کے لیے اسکول میں داخل کروا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہمارا کام ختم، قاری صاحب یا ٹیچر جانیں اور بچہ جانیں۔
سر دست، میں صرف حفظ قرآن پر بات کروں گا۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بچہ صرف قرآن حفظ نہیں کر رہا، وہ اپنے اساتذہ سے اخلاق اور کردار سیکھ رہا ہے، ایک کردار بن رہا ہے، اعتماد، عزت نفس اور ذہنی سکون یا بے سکونی ڈویلپ کر رہا ہے۔
اور افسوس… یہی وہ مقام ہے جہاں ہم والدین، اساتذہ اور ادارے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو مارنا، ڈانٹنا، اور سختی کرنا تربیت کا جزو لازم سمجھا جاتا ہے۔
مدرسے ہوں یا اسکول — جگہ بدلتی ہے، لیکن ہمارے مزاج نہیں بدلتے۔
جبکہ اللہ کے محبوب نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بچوں کو مارنا تربیت نہیں… بلکہ محبت، شفقت اور نرمی ہی اصل تربیت ہے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے، اور حضرت حسینؓ (اس وقت چھوٹے بچے تھے) آ کر آپ ﷺ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے سجدہ لمبا کر دیا تاکہ بچہ کھیلتا رہے اور گر نہ جائے۔ صحابہ کرامؓ پریشان ہوئے کہ سجدہ اتنا طویل کیوں ہو گیا، لیکن بعد میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا، اور میں نے ناپسند کیا کہ میں جلدی کروں اور اسے گرا دوں۔"
[مسند احمد: 17137، سنن نسائی: 1141]
رحمتِ عالم ﷺ کی نماز جیسی عظیم عبادت میں بھی بچوں کی خوشی اور تحفظ کو اہمیت دینا ہمیں سکھاتا ہے کہ شفقت اور مہربانی، تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ، جو صرف 10 سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے، فرماتے ہیں:
"میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی، لیکن کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا: اُف۔ نہ ہی کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا۔"
[صحیح بخاری: 6038، صحیح مسلم: 2309]
یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ تربیت سختی سے نہیں بلکہ محبت، صبر اور حسنِ اخلاق سے ہوتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا…؟
کہ ہر بچہ حفظ کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
کہ ہر استاد سکھانے کے قابل نہیں ہوتا۔
کہ ہر ادارہ بچے کی شخصیت سنوارنے کے لائق نہیں ہوتا۔
بلکہ بہت سے اساتذہ اور ادارے چاہے مدارس ہوں یا اسکول، بچوں کی شخصیت تباہ کردیتے ہیں۔
پھر بھی ہم آنکھیں بند کرکے بچے کو کسی بھی ادارے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کبھی قاری صاحب کے جن کو خود شدید تربیت کی ضرورت ہے، کبھی مدرسے کے جس کو احسان کے درجے پر مبنی پروسیسز کی ضرورت ہے، اور کبھی اپنے ہی خوابوں کے! جو ہم اپنے بچوں سے پورے کروانا چاہتے ہیں ل۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ…
بچے کے اساتذہ کا مزاج کیسا ہے؟
جس مدرسے یا اسکول میں بچہ جارہا ہے اس کا ماحول کیسا ہے؟
حفظ کے پروسیس میں بچے کی دلچسپی کتنی ہے؟
ادارے میں اساتذہ کی مستقل تربیت کا کیا اہتمام ہے؟
اساتذہ کی مالی حالت کیا ہے؟
اساتذہ کی اخلاقی حالت کیا ہے؟
اساتذہ کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟
کہیں بچہ اندر ہی اندر ٹوٹ تو نہیں رہا؟
کہیں وہ قرآن کو بوجھ تو نہیں سمجھنے لگا؟
کہیں وہ قرآن کا حافظ تو بن رہا ہے لیکن عاشق نہیں بن رہا؟
یاد رکھیے، دین کا کوئی بھی شعبہ ہو۔۔۔
ادارے، مدارس، اسکول، تب تک قابلِ عمل اور مؤثر نہیں بن سکتا جب تک اس کی بنیاد مضبوط اور واضح وژن، مسلسل تربیت، شفقت، اور مستقل بہتری پر نہ رکھی جائے۔
(یمین الدین احمد)
Subscribe to:
Comments (Atom)