History Fact Founder
History Fact Founder – تاریخ کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ایک منفرد ویب سائٹ دنیا کی تاریخ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا، کیوں ہوا، اور اس کے اثرات آج تک کیسے قائم ہیں۔ History Fact Founder ایسی ہی ایک منفرد اردو ویب سائٹ ہے جو تاریخ کے بھولے بسرے واقعات، حیران کن حقائق، عظیم شخصیات، جنگوں، سلطنتوں، ایجادات، اور تاریخی ثقافتوں کو دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ نہ صرف تاریخی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ تحقیق شدہ، مستند اور قابلِ اعتبار حوالوں کے
Saturday, 9 August 2025
ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
ایک زمانے میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا، جو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ بچپن فاقوں میں گزرا، مگر جوانی میں قسمت نے یاوری کی، تجارت خوب چمکی، اور وہ بہت جلد شہر کے امیر ترین انسانوں میں شامل ہو گیا۔
شروع میں وہ شکر گزار تھا، زکات دیتا، مسافروں کی مدد کرتا، والدین کی خدمت کرتا۔
مگر جیسے جیسے دولت بڑھتی گئی، اُس کے دل میں حرص کا زہر بھی اترتا گیا۔
اب وہ کہتا:
"یہ کافی نہیں، فلاں کے پاس تین حویلیاں ہیں، میرے پاس دو ہی کیوں؟"
دن رات حساب کتاب، نئی زمین، نئے سودے، خزانے کی تجوریاں بھرنے کی فکر…
جب کوئی فقیر آتا، تو تاجر کہتا:
"ابھی میرے سارے سودے مکمل نہیں ہوئے، پھر دیکھوں گا۔"
ایک دن اس نے ایک پرانی زمین خریدی، جہاں کام کرتے مزدوروں کو زمین کے اندر ایک خزانے کا صندوق ملا — سونے، چاندی اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا۔
سب مزدور حیران ہوئے، خوشی سے شور مچایا۔
تاجر وہاں پہنچا، خزانے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں لالچ کے دیے جلنے لگے۔
اُس نے سب سے پہلے چِلّا کر کہا:
"یہ خزانہ میرا ہے! میری زمین ہے! کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے!"
اور پھر اس نے سب مزدوروں کو نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔
لیکن جیسے ہی اس نے صندوق کھولا، ایک دھواں سا نکلا… اور ایک پراسرار آواز گونجی:
"اے حرص کے بندے! یہ خزانہ تیرے امتحان کے لیے تھا، تیرے اعمال کے لیے نہیں!"
اتنا کہنا تھا کہ وہ زمین پر گر گیا — دل پر ہاتھ رکھا اور دم توڑ گیا۔
خزانے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے، اور لوگ کہتے ہیں کہ آج بھی رات کو وہاں سے ایک آہ سنائی دیتی ہے:
"بس تھوڑا اور… بس تھوڑا اور…"
حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔حرص انسان کو نہ شکر گزار بننے دی
Sunday, 3 August 2025
ایک شیرنی کا مالک سینہ تان کے چلتا ھے سوچو چار شیرنیاں رکھنے والا کتنا بہادر ہوگا😂
چار عدد کا کمال"""""""
ایک شیرنی کا مالک سینہ تان کے چلتا ھے سوچو چار شیرنیاں رکھنے والا کتنا بہادر ہوگا😂
پاکستان کے چار صوبے ہیں ہر صوبے سے ایک شیرنی ہو تو قوم میں اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم ہوجائے یوں لسانیت و قوم پرستی جڑ سے اُکھڑ جائے گی😂
موسم چار ہیں ایک شیرنی بہار کی طرح ہو ایک خزاں کی طرح ایک گرمی جیسی اور ایک سردی جیسی تاکہ ایک ہی گھر میں جنت کا مزہ ملے☺
چار سمتیں ہیں ایک شیرنی آگے ہو ایک پیچھے ایک دائیں ایک بائیں جانب ہو تاکہ لومڑیاں دور رہیں😳
بیوی ویسے بھی ایمان کی محافظہ ہوتی ہے تو کیسا مضبوط و محفوظ ایمان ہوگا کہ اگر چاروں جانب محافظ ہوں☺
انسان چار چیزوں سے مرکب ہے آگ"ہوا"پانی"مٹی
چار بیویاں اِن چاروں جیسی ہوں ایک آگ سی جو جلا دے ایک پانی سے جو بجھا دے ایک ہوا سے جو اڑا دے ایک مٹی سے جو دفنا دے😂😜😂
اعضاء اربعہ دو ہاتھ دو پاؤں بھی کل چار ہیں
ایک بیوی ایک ہاتھ دبائے دوسری دوسرا ہاتھ تیسری ایک پاؤں کی مالش کرے چوتھی دوسرے پاؤں کی مالش کرے
یوں بندہ پرسکون رہے😘😍😘
اصولِ دین چار ہیں قرآن"سنت"اجماع"قیاس
ایک بیوی قرآن کی ماہرہ ہو دوسری حدیث کی عالمہ تیسری اجماعِ امت کی چوتھی قیاس و عقل کی ماہرہ ہو
یوں اولاد محدث و فقیہ پیدا ہوں گے☺
فقہ چار ہیں حنفی شافعی مالکی حنبلی
تو ایک حنفیہ ہو دوسری شافعیہ تیسری مالکیہ چوتھی حنبلیہ تاکہ اصول و فروع ایک چھت تلے جمع ہوں☺
طریقت کے سلسلے بھی چار ہیں چشتی سہروردی نقشبندی قادری
بیویاں بھی چار ہوں
قادریہ"چشتیہ"نقشبندیہ"سہروردیہ
تاکہ ایک ہی گھر میں مراقبہ و محاسبہ اور فیض عام ہو جائے😍😘
لیکن یہ سب تب کریں جب شوقِ شہادت ہو😂😂
رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاواقعہ یقینابہت ہی اندوہناک سانحہ تھا حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ
حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ🥺❤🩹
رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاواقعہ یقینابہت ہی اندوہناک سانحہ تھا،جس کی وجہ سے تمام مدینہ شہرمیں ہرجانب رنج والم کی فضاء چھائی ہوئی تھی …ہرکوئی غم کے سمندر میں ڈوباہواتھا…یہی کیفیت حضرت بلال بن رباح ؓ کی بھی تھی …اسی کا یہ اثرتھاکہ رسول اللہ ﷺ کے بعداب انہوں نے مسجدِنبوی میں اذان دینے کاوہ سلسلہ ترک کردیا…کیونکہ دورانِ اذان جب وہ ’’ أشْہَُدأنّ مُحَمّداً رَسُولُ اللّہ‘‘پرپہنچتے توبہت اداس ہوجاتے،آوازگلوگیرہوجاتی…اورتب ان کیلئے اذان مکمل کرنابہت دشوار ہو جاتا۔
رسول اللہ ﷺ کے بعداب مدینہ میں بلال بن رباح ؓ کادل بھی نہیں لگتاتھا،یہی وجہ تھی کہ آخرانہوں نے یہ فیصلہ کیاکہ ملکِ شام میں جواسلامی فوج رومیوں کے خلاف برسرِ پیکارہے ٗ میں بھی وہاں چلاجاؤں ،اوراب اپنی باقی زندگی ان سپاہیوں کے شانہ بشانہ بس اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروقف کردوں …
چنانچہ اس بارے میں حضرت بلال ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اولین جانشین اور خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے اجازت چاہی،جس پرحضرت ابوبکرؓنے اصرارکیاکہ:’’بلال!آپ ہمیں چھوڑکرمت جائیے‘‘لیکن بلالؓ جانے پر مُصر تھے، دونوں طرف سے اصرارکایہ سلسلہ چلتارہا…آخرحضرت بلال ؓنے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’اگرآپ اس وجہ سے مجھے جانے کی اجازت نہیں دے رہے کہ آپ نے مجھے مکہ میں اُمیہ سے خریدکرآزادکیاتھا…اوراپنے اسی احسان کی وجہ سے آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی بات مانوں …تب ٹھیک ہے ،میں حاضرہوں … اور اگر آپ نے مجھے محض اللہ کی رضاکی خاطرآزادکیاتھا…تومیری آپ سے گذارش ہے کہ آپ مجھے مت روکئے ، مجھے جانے کی اجازت دے دیجئے‘‘
حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جب بلالؓ کی زبانی یہ بات سنی… توانہیں مدینہ سے ملکِ شام چلے جانے کی اجازت دے دی۔
٭چنانچہ حضرت بلال بن رباح ؓ مدینہ منورہ سے ملکِ شام منتقل ہوگئے، اوروہاں اسلامی لشکرمیں شامل ہوکراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرجدوجہدمیں مشغول ومنہمک ہوگئے۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا،اسی طرح اب ملکِ شام میں بھی سبھی لوگ دل وجان سے ان کی عزت کیاکرتے تھے، لیکن بلالؓ ہمیشہ یہی کہاکرتے : اِنّمَا أنَا عَبدٌ حَبَشِيٌّ ، اِبنُ أَمَۃٍ سَوْدَاء … یعنی’’میں تومحض ایک حبشی غلام ہوں ،ایک سیاہ فام کنیزکابیٹا…‘‘
دراصل یہ تومحض حضرت بلال ؓ کی طرف سے تواضع اورعجزوانکسارتھا…ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام میں چہروں کی سفیدی یاسیاہی کی توکوئی حیثیت نہیں ہے،بلکہ اصل چیزتودلوں کی سفیدی یاسیاہی ہے…بالفاظِ دیگراصل اعتباراعمال کی سفیدی یاسیاہی کا ہے…جبکہ چہروں کی سفیدی یاسیاہی دینِ اسلام میں قطعاًکوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
٭شب وروزکایہ سفرجاری رہا…خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے انتقال کے بعدخلیفۂ دوم کی حیثیت سے حضرت عمربن خطاب ؓ نے ذمہ داریاں سنبھالیں ،تب اسلامی فتوحات کاسلسلہ بہت زیادہ وسعت اختیارکرگیا،گویامشرق ومغرب میں فتوحات کاایسا طاقتورسیلاب تھاجس کے آگے بندباندھناکسی کے بس کی بات نہیں تھی…
انہی دنو ں ۱۷ھ میں سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ(۱) کی زیرِقیادت فتحِ بیت المقدس کاانتہائی یادگاراورتاریخی واقعہ پیش آیا،اس موقع پرمسلمانوں اور رومیوں کے مابین ایک معاہدے کے مطابق اب بیت المقدس شہرکی چابی مسلمانوں کے حوالے کی جانی تھی،اس موقع پررومیوں کے بادشاہ نے یہ شرط رکھی کہ’’ اس مقصدکیلئے مسلمانوں کے خلیفہ (حضرت عمرؓ)خودبیت المقدس آئیں ،ہم چابی فقط انہی کے حوالے کریں گے …کسی اورکوہم یہ چابی نہیں دے سکتے‘‘
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ نے بذریعۂ مکتوب حضرت عمربن خطاب ؓ کواس صورتِ حال سے مطلع کیا،تب ان کایہ خط موصول ہونے پرمدینہ میں حضرت عمربن خطاب ؓ نے اکابرصحابۂ کرام سے اس بارے میں مشاورت کی ۔
اس موقع پربعض حضرات نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ’’آپ کووہاں نہیں جاناچاہئے، کیونکہ رومیوں نے ہم مسلمانوں کومحض تنگ کرنے کی خاطرنفسیاتی حربے کے طورپریہ شرط رکھی ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ خودبیت المقدس آئیں …حقیقت تویہ ہے کہ رومی جب ہم سے شکست کھاچکے ہیں ٗتوکیاوہ اس بات کونہیں جانتے کہ شہرکی چابی تو ہم ویسے بھی ان سے چھین سکتے ہیں کہ جب ہم یہ شہرہی فتح کرچکے ہیں تواب چابی کی کیا حیثیت ہے…؟‘‘
جبکہ اس موقع پرحضرت علی بن ابی طالب ؓ نے یہ مشورہ دیاکہ’’آپ کووہاں ضرورجاناچاہئے ،کیونکہ اس طرح جذبۂ خیرسگالی بڑھے گا اوررومیوں کے ساتھ ہمارے آئندہ تعلقات پرخوشگواراثرات مرتب ہوں گے‘‘
تب حضرت عمربن خطاب ؓ نے حضرت علیؓکے مشورے کوپسندکرتے ہوئے بیت المقدس جانے کافیصلہ کرلیا…اورپھرمدینہ میں حضرت علیؓ کواپنانائب مقررکرنے کے بعد وہاں سے بیت المقدس کی جانب محوِسفر ہوگئے۔
طویل سفرطے کرنے کے بعدحضرت عمرؓجب بیت المقدس پہنچے تووہاں اسلامی فوج کے سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح ٗ نیزدیگرکبارِصحابہ ٗ اہم شخصیات اورمختلف سپہ سالاروں سے ملاقات ہوئی ،مثلاً معاذبن جبل ٗ خالدبن ولید ٗ یزیدبن ابی سفیان ٗ شرحبیل بن حسنہ ٗ وغیرہ ٗ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اس موقع پر حضرت عمربن خطاب ؓ کی نگاہیں دائیں بائیں کسی کوتلاش کرتی رہیں ، کسی نے استفسارکیاکہ ’’اے امیرالمؤمنین!کیاآپ کوکسی کی تلاش ہے؟‘‘حضرت عمرؓ نے جواب دیا’’ہاں …بلال کہاں ہیں ؟‘‘ اورپھرحضرت بلالؓ بھی وہاں پہنچے ، ملاقات ہوئی۔ اس کے بعدجب نمازکاوقت ہواتوسب نے اصرارکیاکہ’’آج بلال اذان دیں ‘‘لیکن حضرت بلالؓ نے معذرت کردی۔آخرخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب ؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’اے بلال!فتحِ مکہ کے یادگاراورعظیم الشان موقع پررسول اللہ ﷺ نے دس ہزارافرادپرمشتمل لشکرمیں سے صرف آپ کواذان کیلئے منتخب فرمایاتھا…وہ یادگارترین موقع تھا…اورآج یہ فتحِ بیت المقدس کاواقعہ بھی یادگارترین موقع ہے…لہٰذاہم سب کی یہی خواہش ہے کہ آج بھی آپ ہی اذان دیں …تب حضرت بلال ؓ آمادہ ہوگئے،اوراذان دی…حضرت عمربن خطاب ؓ ٗ ودیگراکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جواس موقع پروہاں موجودتھے،آج سالہا سال کے بعدجب انہوں نے حضرت بلالؓ کی پُرسوزاوردل نشیں آوازمیں ’’اذان‘‘سنی ٗ توانہیں رسول اللہ ﷺ کامبارک زمانہ یادآگیا…اورتب وہ سبھی آبدیدہ ہوگئے۔
شب وروزاورصبح وشام کایہ سفرجاری رہا…حضرت بلال بن رباح ؓ بدستور ملکِ شام میں ہی مقیم رہے،اللہ کے دین کی سربلندی کے جذبے سے سرشار…مسلسل اسلامی فوج میں خدمات انجام دیتے رہے…آخر ۲۰ھ میں وہیں دمشق میں مختصرعلالت کے بعداس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے اوراپنے اللہ سے جاملے…
یوں وہ آوازہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی کہ جب ابتدائے اسلام میں ’’اَحد،اَحد‘‘کانعرہ اسی آوازمیں بلندہواکرتاتھاتومکہ شہرمیں بڑے بڑے ظالم وجابراورمغرورومتکبرسردارانِ قریش کے دلوں پرلرزہ طاری ہوجایاکرتاتھا،اورجب رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں مدینہ میں یہی آوازاذان کی صورت میں بلندہوتی اورمدینہ کی مبارک فضاؤں میں گونجتی تواہلِ ایمان کے دلوں کوگرمادیاکرتی تھی،فتحِ مکہ کے یادگارموقع پربھی یہی آوازاذان بن کرفضاء میں بلندہوئی تھی…اورپھرفتحِ بیت المقدس کے یادگارموقع پربھی یہی آوازاذان بن کرفضاء میں گونجی تھی…یہ مبارک آواز…اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے اس جلیل القدرصحابی حضرت بلال بن رباح ؓ کے درجات جنت الفردوس میں بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ ٗنیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت سے نوازیں
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے
اشفاق احمد کہتے ہیں ........
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا- ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے بابا جی سے کہا کچھ دے الله کے نام پر-
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا-
وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا بابا جی کو-
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا ١٠ روپے بنا لئے ہیں تو دس روپے بڑے ہوتے تھے-
تو بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لئے ہیں تو اپنے دیتے میں سے کچھ دے-
تو اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں میں کہاں سے دوں؟
انھوں نے کہا، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہئے تو اس فقیر کے دل کو یہ بات لگی-
کہنے لگا اچھا-
وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے-
تو وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں- اور بھاگ کے لایا، اور آ کر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں- کہنے لگا ، لو آدھی آدھی کر لینا -
وہ بڑے حیران ہوئے میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے-
بڑی مہربانی بابا تیری، بڑی مہربانی-
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی- وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا-
تو میرے بابا جی نے کہا، " اوئے لکیا کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے، خوش ہو نچ کے وکھا- "
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے
Saturday, 2 August 2025
انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا
ساغر صدیقی
1928 انبالہ میں پیدا ہوئے. نام محمد اختر تھا. گھر میں ہر طرف افلاس کا دور دورہ تھا۔ محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہیں کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ پڑھا. ان سے ہی پڑھا. ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور کنگھیاں بنانا سیکھا اور کام شروع کیا. لیکن شعر وہ اس 14، 15 برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔
کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے گیتوں کی فرمائش کی اور کامیابی ہوئی۔
1952 کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ اس طرح وہ نشے کے عادی ہو گئے.
لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔
اس کا پہلا مجموعہ کلام ایک ناشر نے ساغر کے اشعار سن سن کر جمع کرنے کے بعد چھپوایا تھا جس کا پہلا ایڈیشن ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا۔۔۔لیکن اس ناشر نے ساری آمدن اپنی جیب میں ڈال لی. کتنی غزلیں تھیں جو اس تخلّص کے اعجاز سے معتبرٹھہریں اورنہ جانے کتنی اور ہوں گی جو ہوش وخرد کی سرحدوں سے پرے، جنوں اورپری کے عوض معاوضے او ر ایک بےخود ی و بےگانگی کی قیمت اداکرنے میں بے توقیرہوئیں.
ان کی تصانیف میں ’زہر آرزو‘،
’غم بہار‘، شب آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوح جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘۔ ’’کلیات ساغر ‘‘ شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا اور ان کی وفات 19 جولائی 1974ء کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔ انھیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا.
بزم کونین سجانے کے لئے آپ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ آئے
——
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
——
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
——
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
——
یاد رکھنا ہماری تُربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
——
ہائے یہ بیگانگی ، اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں
——
کہتے ہیں تیری زلفِ پریشاں کو زندگی
اے دوست ! زندگی کی تمنا بُری نہیں
——
ایک وعدہ ہے کسی کا ، جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
——
ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے
مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے
——
میں بھی جنت سے نکالا ہوا اک بُت ہی تو ہوں
ذوقِ تخلیق ! تجھے کیسے ستم آتے ہیں
——
یوں چٹکتے ہیں شاخ پر غنچے
جیسے اُن کے سلام آتے ہیں
——
ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
——
ساغرؔ کسی کی یاد میں جب اشکبار تھے
کتنے حسین دن تھے جہانِ خواب میں
——
میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
——
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
——
روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
——
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
——
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
——
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
——
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
——
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
——
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام
(سبق آموز کہانی – از قلم عثمان بشیر)
سفید کوٹ، اسٹیتھو سکوپ، بہترین اسپتال میں اچھی نوکری، اپنی گاڑی، اپنا گھر، اور ہر جمعرات کو سوشل ورک۔
لوگ اسے دیکھتے اور کہتے:
"ماشاءاللہ! کتنی مکمل عورت ہے… ہر لڑکی کو اس جیسا بننا چاہیے!"
اور وہ؟
وہ مسکراتی تھی۔
ہلکی آواز میں دعائیں دیتی تھی۔
مگر… صرف وہ جانتی تھی کہ اندر سے کچھ نہیں بچا۔
روز صبح خود کو آئینے میں دیکھتی، اور دل کہتا:
"تم سب کو بچا رہی ہو… مگر تمہیں کون بچائے گا؟"
کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ سونے سے پہلے دل بھاری ہوتا ہے،
کبھی کسی کے سامنے یہ نہیں کہا کہ
"ساری زندگی دوسروں کو سہارا دیتے دیتے، خود تنہا ہو گئی ہوں۔"
نماز؟ کبھی کبھی۔
قرآن؟ برسوں سے کھولا نہیں۔
دل؟ ہمیشہ خالی۔
روح؟ جیسے کوئی صدیوں سے صحرا میں بھٹک رہا ہو۔
پھر ایک دن…
OPD میں ایک بوڑھی مریضہ آئی۔
چہرہ جھریوں سے بھرا، آنکھوں میں نور، اور لبوں پر تسبیح کے الفاظ۔
علاج کے بعد وہ ڈاکٹر سے بولی:
"بیٹا! تمہاری نبض تو ٹھیک ہے… مگر تمہاری روح رو رہی ہے۔"
ڈاکٹر چونکی۔
"آپ نے کیا کہا…؟"
بوڑھی مسکرا کر بولی:
"نماز چھوڑ دو… قرآن سے دور رہو… اور پھر دنیا کے سب سہارے لے لو — خالی تو رہو گی ہی۔"
وہ دن، ایک شعلہ بن گیا۔
اس نے سجدہ کیا — برسوں بعد، مگر دل سے۔
آنکھوں سے آنسو بہے جیسے صدیاں نکل رہی ہوں۔
قرآن کھولا — اور پہلی آیت دل پر یوں اتری جیسے کسی نے سینے میں چراغ رکھ دیا ہو:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
"خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
اور وہ عورت…
اب بھی وہی ڈاکٹر ہے۔
مگر فرق یہ ہے:
پہلے وہ لوگوں کا جسم بچاتی تھی، اب دل بھی سنبھالتی ہے۔
پہلے وہ سٹیپتھو سکوپ سے دل سنتی تھی،
اب وہ ہر مریض سے پہلے "دل کی دعا" مانگتی ہے۔
اب لوگ کہتے ہیں:
"ماشاءاللہ! وہ صرف ڈاکٹر نہیں… وہ دلوں کو جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔"
🌿 سبق:
دنیا کی ہر کامیابی، ہر مقام، ہر عہدہ —
تمہیں مکمل تبھی کرے گا… جب تم رب سے جُڑے ہو گے۔
تم جتنی بھی بڑی ڈاکٹر، وکیل، ماہر، CEO، یا ماں بن جاؤ —
اگر سجدے چھوٹ گئے،
اگر دل قرآن سے دور ہو گیا،
تو سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم خالی ہو گے۔
اور جب تم اللہ سے جُڑ جاؤ…
تو پھر چاہے تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو — تم مکمل ہو جاتے ہو۔
Thursday, 31 July 2025
*والدین کے لیے ایک سبق آموز واقعہ __!!* ✍🏻
*والدین کے لیے ایک سبق آموز واقعہ __!!* ✍🏻
خلفاء بنو عباس میں سے ایک خلیفہ نے اپنے زمانہ کے بعض علماء سے یہ خواہش کی کہ آپ کچھ ایسے اہم اور موثر واقعات لکھ بھیجئے جنہیں آپ نے خود دیکھا ہو یا سنا یا پڑھا ہو۔ اس خواہش کی تکمیل میں ایک عمر رسیدہ عالم نے لکھا کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو دیکھا ہے۔ جب یہ مرض موت میں مبتلا تھے تو کسی نے کہا امیر المومنین آپ نے اس مال کو اپنے بیٹوں سے دور رکھا ہے، یہ فقیر و بے نوا ہیں، کچھ تو ان کے لیے چھوڑنا چاہئے تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹوں کو بلایا جن کی تعداد دس تھی، جب یہ حاضر ہوئےتو رونے لگے پھر مخاطب ہو کر فرمایا میرے بیٹو! جو تمہارا حق تھا وہ میں نے تم کو پورا پورا دے دیا ہے کسی کو محروم نہیں رکھا اور لوگوں کا مال تم کو دے نہیں سکتا، تم میں سے ہر ایک کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ صالح ہوگا تو اللہ تعالی صالح بندوں کا والی اور مددگار ہے، یا غیر صالح ہوگا اور غیر صالح کے لیے میں کچھ چھوڑنا نہیں چاہتا کہ وہ اس مال کے ذریعہ اللہ تعالی کی معصیت میں مبتلا ہوگا۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا قوموا عني (بس تم سب جاو اتنا ہی کہنا چاہتا تھا)۔
عالم نے لکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بڑے فرماں روا اور ایک وسیع مملکت کے مالک تھے، اس کے با وجود ان کی اولاد کو ان کے ترکہ میں سے بیس بیس درہم سے بھی کم ملے لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ ان کے یہ لڑکے سو سو گھوڑے فی سبیل اللہ دیتے تھے تاکہ مجاہدین اسلام ان پر سوار ہوکر جہاد کریں۔ عالم نے اس کے بعد لکھا کہ میں نے اس کے بر عکس بعض ایسے فرماں رواوں کو بھی دیکھا ہے کہ جنہوں نے اپنا ترکہ اتنا چھوڑا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد جب لڑکوں نے باہم تقسیم کیا تو ہر ایک حصہ میں چھ چھ کروڑ اشرفیاں آئی تھیں لیکن میں نے ان لڑکوں میں سے بعض کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لوگوں کے سامنے بھیک مانگا کرتے تھے۔
یہ ایک نہایت سبق آموز واقعہ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ والدین کے لیے اولاد کے سلسلہ میں نہایت مالدار یا غیر مالدار بنانے کا اہم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں صالح بنایا جائے، صالح بندوں کی امداد اور حمایت کا وعدہ خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے لڑکوں کو والد کے ترکہ (میراث) سے صرف بیس بیس درہم ہاتھ لگے تھے لیکن چونکہ لڑکے صالح تھے، اللہ نے ان کو بہت کچھ عطا فرمایا اور وہ بھی اللہ کے راستہ میں جی کھول کر دینے لگے۔ دوسری طرف بعض خلفاء عباسیہ چھ چھ کروڑ اشرفیاں اپنے لڑکوں کے لیے ترکہ میں چھوڑ گئے تھے لیکن بد عملی کی پاداش میں انہیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھانی پڑی۔
پس کتنے والدین ہیں جو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور ان کے سامنے اہم مسئلہ اولاد کو صالح بنانے کا ہو اور اس سلسلہ میں وہ سارے جتن کرتے ہوں جو انہیں کرنے چاہئیں۔
🪀🪀 *واٹس ایپ کے فضول اور فحش چینلز سے اپنے بچوں اور خاندان کو ان فحش اور فضول چینلز سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔*
آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر طرف سوشل میڈیا کا شور ہے۔ واٹس ایپ پر ہزاروں چینلز بن چکے ہیں، مگر افسوس کہ ان میں سے کئی چینلز گندگی، فحاشی، غیر اخلاقی مواد اور بے فائدہ باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔
یہ چینلز:
وقت کا ضیاع ہیں؛ جو گھنٹوں انسان کو مصروف رکھ کر زندگی کے قیمتی لمحات چھین لیتے ہیں۔
ایمان و اخلاق کو کھوکھلا کرتے ہیں؛ فحش مواد دل میں برائی کے بیج بوتا ہے اور نیک اعمال سے دور کر دیتا ہے۔
دماغ کو آلودہ کرتے ہیں؛ بے ہودہ تصاویر اور ویڈیوز ذہن کو بگاڑ دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، یہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔"
(سورہ بنی اسرائیل: 32)
کیا ہمیں اپنی آنکھوں اور وقت کو ان فضول چینلز پر ضائع کرنا زیب دیتا ہے؟
ایسے چینلز کو فوراً چھوڑ دیں۔
اپنے فون میں صرف وہی چینلز رکھیں جو دینی، تعلیمی یا فائدہ مند معلومات فراہم کریں۔
*اپنے بچوں اور خاندان کو ان فحش اور فضول چینلز سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔*
ایک قیمتی جان، ایک کڑوا سبق — ریبیز کی خاموشی، موت کی آواز
🕊️ ایک قیمتی جان، ایک کڑوا سبق — ریبیز کی خاموشی، موت کی آواز 🕊️
محمد ارمان ولد غلام محمد
عمر: 16 سال
رہائشی: کوٹ احترام، بہڑوال کلاں
گزشتہ تین روز قبل 27 جولائی 2025 کو ریبیز (کتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری) کا شکار ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
> اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
💔 اللہ تعالیٰ محمد ارمان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور والدین و خاندان کو صبر جمیل دے، آمین۔
---
🦠 ریبیز کا پس منظر:
ارمان کو آٹھ ماہ قبل ایک کتے نے کاٹا تھا۔
اس وقت معلومات کی کمی اور احتیاط نہ کرنے کے باعث
Anti Rabies Vaccine نہ لگوائی جا سکی۔
تقریباً 15 دن قبل ارمان کے اندر ریبیز کی خطرناک علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں —
جیسے:
* بے چینی
* پانی، روشنی یا ہوا سے خوف
* ذہنی کیفیت میں تبدیلی
فوری طور پر لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا، مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔
> ❗ ریبیز ایسی بیماری ہے جس میں علامات ظاہر ہونے کے بعد جدید میڈیکل سائنس بھی بے بس ہو جاتی ہے — نہ دوا کام آتی ہے، نہ بڑے سے بڑا ڈاکٹر، نہ ہی پیسہ یا تعلق۔
اس بیماری سے صرف وقت پر ویکسین اور احتیاط ہی جان بچا سکتی ہے۔
---
🔍 ریبیز کیا ہے؟
ریبیز ایک مہلک وائرل بیماری ہے جو جانوروں کے لعاب (تھوک) سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، خصوصاً اگر کوئی:
🔸 کتا
🔸 بلی
🔸 بندر
🔸 چمگادڑ
🔸 یا دیگر جنگلی جانور
کاٹ لے یا خراش دے۔
یہ وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے، اور علامات ظاہر ہونے کے بعد تقریباً ہمیشہ موت واقع ہو جاتی ہے۔
---
⚠️ ابتدائی علامات:
* بخار، بے چینی، کمزوری
* پانی، ہوا یا روشنی سے خوف (Hydrophobia, Aerophobia, Photophobia)
* ذہنی انتشار، بھاگنے یا چیخنے کی کیفیت
* جسم میں جھٹکے، فالج
* آخرکار: کوما اور موت
---
💉 زندگی بچانے والے اقدامات (اگر جانور کاٹ لے):
1️⃣ زخم کو فوراً صابن اور پانی سے کم از کم 15 منٹ دھونا
2️⃣ 24 گھنٹے کے اندر پہلا ویکسین ٹیکہ لگوانا
3️⃣ مکمل ویکسین کورس (5 ٹیکے مقررہ دنوں پر) مکمل کرنا
4️⃣ اگر زخم گہرا ہو یا چہرے/گردن کے قریب ہو تو RIG (Rabies Immunoglobulin) بھی لازمی لگوانا
> ❗ صرف "وقت پر ویکسین" ہی زندگی بچا سکتی ہے۔
---
🕯️ ارمان کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ لاعلمی اور تاخیر صرف افسوس نہیں، جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
📢 اپنی محبت، انسانیت اور ذمہ داری کا ثبوت دیں — اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، تاکہ ارمان کی قربانی رائیگاں نہ جائے، اور کسی اور کی زندگی بچ سکے
"کیا ہر وقت صفائی، perfection اور سب کچھ control کرنے کی عادت… بیماری ہے؟"
ایک ایسا سوال جو بظاہر معمولی لگتا ہے…
مگر حقیقت میں ہزاروں پاکستانی خواتین کی اندرونی تھکن کی گواہی ہے۔
✍ تحریر: عثمان بشیر | آئیڈیل لائف کاؤنسلنگ
وہ عورت جو صبح سے شام تک ایک ایک چیز اپنی جگہ پر رکھتی ہے، ہر کونے کو چمکاتی ہے، ہر کام خود کرتی ہے، بچوں کو وقت پر نہلانا، شوہر کے کپڑے وقت پر استری کرنا، برتن، قالین، کپڑے، چھتیں، دیواریں… ہر چیز اُس کے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔
اور اگر کوئی چیز اُس کے حساب سے نہ ہو… تو اُس کے اندر ایک عجیب سی بےچینی، جھنجھلاہٹ، اور گھٹن پیدا ہو جاتی ہے۔
❓یہ perfection ہے… یا پھر کچھ اور؟
یہ وہ مقام ہے جہاں Productivity اور OCD (Obsessive Control Disorder) کا فرق دھندلا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسی عورت بظاہر ایک مثالی ہاؤس وائف ہوتی ہے… مگر اندر سے ٹوٹی ہوئی، تھکی ہوئی، اور بے سکون۔
🔍 اصل مسئلہ کیا ہے؟
یہ عورت صفائی نہیں کر رہی… وہ اپنے اندر کے خوف کو صاف کر رہی ہے۔
وہ ہر چیز کو control میں رکھ کر دراصل اپنے دل کی بے چینی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
"اگر ہر چیز perfect نہ ہوئی تو شوہر ناراض ہو جائے گا"
"اگر سب کچھ نہ سنبھالا تو مجھے ناکام سمجھا جائے گا"
"اگر تھوڑا سا بھی relax کیا تو مجھے بےکار عورت کہا جائے گا"
یہ سوچیں آہستہ آہستہ عورت کو anxious perfectionist بنا دیتی ہیں جو جسم سے کام کرتی ہے، مگر روح سے مسلسل تھک رہی ہوتی ہے۔
🧠 نفسیاتی حقیقت:
ایسی عورت کا دماغ "fight or flight mode" میں رہتا ہے
وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتی، کیونکہ perfection کبھی achieve نہیں ہوتی
وہ دوسروں کی مدد یا گڑبڑ برداشت نہیں کر سکتی
اور سب سے بڑھ کر… وہ خود کو صرف کام کے قابل سمجھتی ہے، محبت کے نہیں
🌿 اسلامی رہنمائی:
رسول اللہ ﷺ کا عمل تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور کبھی کسی کمی پر تنقید نہ کرتے۔
اسلام نے عورت کو "قدرتی کمزوریوں کے ساتھ قیمتی وجود" مانا ہے، نہ کہ ایک روبورٹک perfectionist۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"
(سورۃ البقرۃ: 286)
"اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔"
تو ہم خود پر اتنا بوجھ کیوں ڈالیں؟
🌸 اب حل کیا ہے؟
1️⃣ Mindfulness Practice کریں:
روزانہ 10 منٹ صرف بیٹھیں، کچھ نہ کریں۔
اپنے دل کی باتیں سنیں۔ صفائی کے شور سے باہر نکلیں۔
2️⃣ Real vs Illusion of Control:
اللہ ہی ہے جو نظام کو سنبھالتا ہے — ہم صرف کوشش کرتے ہیں۔
سکون perfection سے نہیں، اللہ پر توکل سے ملتا ہے۔
3️⃣ Family Delegation سیکھیں:
ہر چیز خود کرنے کے بجائے بچوں، شوہر، یا ملازمہ کو سکھائیں۔
Control چھوڑنا بھی شفاء کا حصہ ہے۔
4️⃣ Acceptance of Imperfection:
کبھی جان بوجھ کر ایک دن کچھ نہ صاف کریں —
اور دیکھیں کہ دنیا نہیں ٹوٹتی…
مگر آپ کا دل شاید پہلی بار سکون لے سکے۔
5️⃣ روحانی توجہ:
روزانہ چند لمحات صرف اللہ کے لیے رکھیں۔
ذکر، دعا، اور تلاوت — یہ آپ کو remind کرتے ہیں کہ
"صفائی آپ کی طاقت ہے… مگر سکون آپ کی ضرورت!"
📡 ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں — جہاں ہر دن ایک شفاء:
💬 کیا آپ بھی ہر چیز perfect رکھنے کی جدوجہد میں خود کو کھو بیٹھی ہیں؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ… شاید اب آپ کو صفائی سے زیادہ سکون کی ضرورت ہے؟
دس صحابہ کرام جن کو آپﷺ نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی خوش خبری دی
وہ دس صحابہ کرام جن کو آپﷺ نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی خوش خبری دی انہیں عشرہ مبشرہ کہتےہیں
حضرت ابوبکرؓ فی الجنہ
حضرت عمرؓ فی الجنہ
حضرت عثمانؓ فی الجنہ
حضرت علیؓ فی الجنہ
حضرت طلحہ فی الجنہ
حضرت زبیر فی الجنہ
حضرت سعد فی الجنہ
عبد الرحمن فی الجنہ
حضرت ابو عبیدہ فی الجنہ
حضرت سعید فی الجنہ
یقینی جنت کے 10 صحابہ کے بارے میں ایک پوسٹ:
اسلامی تاریخ میں، 10 صحابہ کرام کو نبی اکرم ﷺ نے جنت کی ضمانت دی تھی۔ ان صحابہ کو "عشرہ مبشرہ" کہا جاتا ہے۔ ان کے نام اور خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. *حضرت ابوبکر صدیقؓ*: نبی اکرم ﷺ کے قریبی دوست اور پہلے خلیفہ۔
2. *حضرت عمر بن خطابؓ*: دوسرے خلیفہ، انصاف اور حق گوئی کے لئے مشہور۔
3. *حضرت عثمان بن عفانؓ*: تیسرے خلیفہ، قرآن مجید کے نسخوں کی تدوین کے لئے مشہور۔
4. *حضرت علی بن ابی طالبؓ*: نبی اکرم ﷺ کے داماد اور چوتھے خلیفہ۔
5. *حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ*: عظیم مجاہد اور سخی شخصیت۔
6. *حضرت زبیر بن عوامؓ*: نبی اکرم ﷺ کے قریبی ساتھی اور عظیم جنگجو۔
7. *حضرت سعد بن ابی وقاصؓ*: پہلی مرتبہ ایران کو فتح کرنے والے سپہ سالار۔
8. *حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ*: کاروبار میں ماہر اور سخی صحابی۔
9. *حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ*: اُمت کے امانت دار اور عظیم فوجی قائد۔
10. *حضرت سعید بن زیدؓ*: انصاف پسند اور نیک سیرت صحابی۔
یہ دس صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کے خاص تربیت یافتہ اور اعلیٰ درجات کے حامل تھے۔ ان کی زندگیوں سے ہمیں دین کی اعلیٰ اقدار سیکھنے کو ملتی ہیں۔ اللہ ہمیں بھی ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Wednesday, 30 July 2025
۔۔۔۔۔۔نصیراحمد بھلی (سیالکوٹ)
"امی ابو ! مجھے معاف کردیجیے گا میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا خدا حافظ " ملازمت نہ ملنے پر نوجوان نے خودکشی کرلی !
"بھائی ! میں امتحان پاس نہیں کر سکا اب اس ندامت کے ساتھ میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا چلتا ہوں " امتحان میں پاس نہ ہو سکنے پر طالب علم نے زہر کھا لیا !
" امی مجھے معاف کردینا لیکن میں یہ شادی نہیں کر سکتی آخرت میں ملاقات ہوگی " رشتہ کے تنازع پر دوشیزہ نے پھندا گلے میں ڈال لیا احباب ذی وقار ایسی خبریں اور چٹھیاں روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن ہم کسی امتحان میں ناکامی کسی محبت میں دل ٹوٹنے اور کسی بیروزگاری سے تنگی کا لبادہ اوڑھا کر ان چٹھیوں کو بھی ان مایوسی زدہ میتوں کے ساتھ دفنا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہمارے مورد الزام ہمیشہ زبر دستی کرنے والے والدین پیچیدگیوں سے بھرا امتحانی نظام اور کرپشن و سفارش سے بھرا یہ معاشرہ ٹھہرتا ہے - یوں ہم کبھی اس بیماری کا ذکر نہیں کر پاتے جس کو "ڈپریشن " کہا جاتا ہے - جی ہاں ڈپریشن ! یہ وہی بیماری ہے جس کی علامات سنتے ہی ہماری زبان پر ڈرامہ اور اداکاری کےالفاظ جاری ہوجاتے ہیں جو تشخیص سے پہلے نظر لگنا اور تشخیص ہو بھی جایے تو پاگل پن قرار پاتی ہے جس کے نتیجے میں ہونے والے شخصی زوال کو کوئی صدمہ اور خود کشی کوئی کمزور اعصاب کی نشانی مان کر باقی بچوں کو فلموں ڈراموں سے پرہیز کرنے کی تلقین کر کے کام مکا دیا جاتا ہے میرے قلم کی جسارت کے اس سلسلہ کی تحریرجو کسی کی جان بچا لے کا آج موضوع ہے "ڈپریشن" -
قارئین محترم ہر گھر میں ڈپریشن کی مختلف تعریف اور پہچان ہے بیٹے کو ہوجاۓ تو ایموشنل بلیک میلنگ سے ماں باپ کو ڈرانا اور بہو کو ہوجاۓ تو ماں کا سکھایا ہوا ڈرامہ سمجھا جاتا ہے - ماں باپ کو ہوجاۓ تو بڑھاپے کا سٹھیانہ اور ملازم کو ہوجاۓ تو کام سے بچنے کا بہانہ قرار پاتا ہے - ہمارا معاشرہ آج کے جدید دور میں بھی صحت اور طب کی معلومات کے بارے میں شدید گمان اور کم علمی کا شکار ہے جہاں آج بھی شوگر کا علاج مقیت شہد اور ہیپاٹائٹس کا علاج کبوتر سے کیا جاتا ہے وہاں ڈپریشن جیسی پیچیدہ بیماری کو پکڑ پانا اور کنٹرول کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر میں انسان کے جسم میں انسولین بننا بند ہوجاتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں بھی انسان کے دماغ میں بہت سے کیمیکل جن کو " نیورو ٹرانسمیٹر " کہتے ہیں ان کا توازن بگڑجاتا ہے جیسے شوگر کی علامات ہوتی ہیں مثلاً بہت پیاس لگنا وزن کم ہونے لگنا بہت پیشاب آنا ویسے ہی ڈپریشن کی بھی نو علامات ہوتی ہیں جو کہ یہ ہیں
١- کسی کام میں خوشی محسوس نہ ہونا -
٢- مایوس محسوس کرنا
٣- نیند کا نہ آنا یا بہت زیاد آنا ٤- بھوک نہ لگنا -
٥- بولتے ہویے نظر نہ ملا پانا یا بہت تیز تیز بولنا جس سے بی چینی ظاہر ہو -
٦- ہر وقت جسم کا تھکا تھکا محسوس ہونا -
٧- اپنی ذات کے بارے میں اس وہم کا شکار رہنا کہ میں ایک ناکام انسان ہوں اور میری وجہ سے میرے خاندان کو بدنامی دیکھنا پڑ رہی ہے -
٨ کسی بھی کام میں دل نہ لگنا -
٩ - خود کشی کے خیال آنا -
ان میں سے کل چار علامات ہفتے میں زیادہ تر دن موجود ہوں اور انسان کی زندگی اور روز مرہ کاموں میں فرق ڈالیں تو آپ کو کوئی نظر کوئی جادو کوئی وہم یا کوئی ڈرامہ نہیں لاحق ہوا بلکہ آپ اس بیماری کا شکار ہوگئےہیں جو ڈپریشن کہلاتی ہے اور قابل علاج ہے جس کےلئے آپ کو کسی بابا جی کے تعویذ، کسی جوگی کے جھاڑو دم اور کسی آنٹی کی میں بھی کبھی بہو والی نصیحت کی نہی بلکہ ایک مستند ڈاکٹر ایک ماہر نفسیات کی ضرورت ہے بالکل ویسے ہی جیسے شوگر کیلئے آپ کو شوگر کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے - جیسے شوگر انسولین سے کنٹرول رہتی ہے ویسے ہی ڈپریشن کونسلنگ اور میڈیسن سے کنٹرول رہتی ہے - ڈپریشن کی اکثر دوائیں کم از کم چھے مہینوں بعد اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہیں اس لئے فورا نتیجہ نہ ملنے پر ڈاکٹر کو ساہوکاراور دوائی کو کاروبار قرار دینے سے پہلے میرا یہ کالم پڑھ لیں-
جیسے شوگر کنٹرول نہ ہو تو گردے فیل ہوسکتے ہیں اور پاؤں بھی کاٹنا پڑ سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن کا ٹھیک علاج نہ ہو تو انسان مایوسی کا اس حد تک شکار ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو کسی پھندے پر لٹکا کر کوئی تیزاب پی کر کسی چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا دھاگہ کاٹ سکتا ہے - ایک اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پاکستان میں تین سو سے زیادہ لوگ ڈپریشن کی وجہ سے خود کا خاتمہ کر لیتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ شوگر میں تو گھرکے ملازم تک کو علم ہوتا ہے کہ صاحب جی کو شوگر آتی تھی اس لئے پاؤں کٹ گیا لیکن اس بیماری میں کسی الله کے بندے کو نہیں پتا چلتا کہ یہ جو خود کشی ہوئی ہے یہ بیوی سے جھگڑے امتحان میں ناکامی باس سے تو تو میں میں اور محبت میں نامرادی کی وجہ سے نہیں بلکہ کبھی تشخیص نہ ہو سکنے والے ڈپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے -
ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں ٣٥ فیصد لوگوں میں ڈپریشن پایا گیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے - خاندانی رویے معاشرتی پابندیاں کم تعلیم معاشی وسائل کی کمی اور آس پاس بڑھتی انتہاء پسندی وہ عوامل ہیں جن سے اس خود بخود ہونے والی بیماری میں بڑھاوا آتا ہے اور پھر اس تابوت میں آخری کیل کی طرح کسی ایک ہٹ کی ضرورت پڑتی ہے جو اس ڈپریشن کے مریض کو موت تک لےجاتی ہے اور یہ ہٹ کسی امتحان میں ناکامی طلاق ملازمت سے برخاستگی اور محبوب کی بیوفائی جیسی کوئی بھی بات ہوسکتی ہے جو ایک عام تندرست انسان کےلئے بہت معمولی اور روز مرہ کی دیگر باتوں جیسی ہی ہوتی ہے -
خاص طور پر عورتوں میں بچے کی پیدائش کے فورا بعد ڈپریشن کا ایک دور آسکتا ہے جس کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہتے ہیں جس میں وہ بات بات پر رونے لگتی ہے اور چڑچڑی ہوکر کبھی کبھی بچے کی بھی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کر پاتی- اس کی وجہ پیدائش کے فورا بعد جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز کی تبدیلی ہے جو چار پانچ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن اس دوران اکھڑ بد مزاج اور ڈرامہ باز کہنے کی بجاۓ اس کو علاج اورکونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھے اکثر پڑھے لکھے اور اونچے گھرانوں میں بھی نظر نہیں آتی اس بیماری کو بیماری نہ سمجھنے کے رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شوگریعنی ذیابیطس اور ٹی بی یعنی تپ دق کی طرح اس بیماری کا کوئی بلڈ ٹیسٹ کوئی ایکسرے نہیں ہوتا بلکہ بس علامات کی بنیاد پر ایک ماہر کے انٹرویو کی ضرورت ہوتی ہے - ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے ہر دس ہزار میں سے بس ایک مریض اس کی تشخیص کیلئے کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جب کہ باقی نو ہزار نو سو ننانوے لوگ یا تو اس کو ڈرامہ اور ایک بہانہ قرار دیے جا نے کے ڈر سے کبھی اظہار ہی نہیں کر پاتے یا کر بھی دیں تو بس کسی بابے جوگیجھاڑ پھونک کرنے والے مولوی صاحب یا خاندان کی سب سے تجربہ کار خاتون سے نصیحت ڈھونڈتے نظر آتے ہیں - وہ الگ بات ہے کہ جب اس بیماری کی وجہ سے وہ خود کشی کر کے موت کے منہ میں چلے جائیں تو وہی مولوی صاحب اور آنٹی اس موت پر حرام ہونے کا فتوی دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں مرنے والے کی چھوڑی ہوئی وہ کاغذ کی چٹھیاں جو لواحقین کو رہتی عمر تک اس کی ذہنی بیماری کو اداکاری نظر اور بہانہ سمجھنے کی غلطی پر کوستی رہتی ہیں میں نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے میں بس پانچ وقت نماز اور دعا کی نصیحت کرکے بات ختم کردی جاتی ہے اور اس بیماری کو محض نا امیدی قرار دےکر اس کو مسلمانیت سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ مسلمان کبھی نا امید اور ڈپریس نہیں ہوسکتا - احباب ذی وقار یاد رکھیں جیسے ایک مسلمان جسم میں انسولین کی کمی ہونے سے شوگر اور کولسٹرول بڑھنے سے ہارٹ اٹیک کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان جسم میں کیمیکل کے توازن بگڑنے سے اس مرض ڈپریشن کا شکار بھی ہوسکتا ہے ہارٹ اٹیک ہونے کی صورت میں،
یہ معاشرہ ہسپتال کیوں بھاگتا ہے؟
سٹنٹ اور ای سی جی کیلئے ؟ مسجد کا رخ کیوں نہیں کرتا ؟ بس پانچ وقت نماز اور قران کی تلاوت کا درس دے کر بات ختم کیوں نہیں کر دیتا جیسا ڈپریشن میں کرتا ہے ؟ ڈپریشن کو مایوسی قرار دیکر بس ذکر و دعا کا درس دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مایوسی اور ڈپریشن میں فرق ہے - ڈپریشن ایک پوری بیماری ہے جس کی نو علامتوں میں سے بس ایک علامت مایوسی ہے - جیسے شوگر میں دعا کے ساتھ ساتھ انسولین کی بھی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی اس بیماری میں دعا اور ذکر کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے -
میری اس تحریر کی وساطت سےاپ سب انسانیت سے پیار کرنے والے احباب ذی وقار سے التماس یہ ہے کہ ہر ذہنی بیماری بشمول ڈپریشن پاگل پن نہیں ہوتی بلکہ ویسی ہی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر ' دمہ اور بلڈ پریشر بیماریاں ہیں- یہ بالکل قابل علاج ہوتی ہے اور اس علاج سے انسان کی ملازمت تعلقات جذبات اور زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں - اس کےلئے ملک عزیز پاکستان میں بہت سے فری کلینیک بھی قائم ہیں احباب ذی وقار آج وقت کی ضرورت ہے کہ اس موذی مرض سے آگہی کے لیے اپنوں میں بیگانوں میں شادیوں میں جنازوں میں مجلسوں میں میلاد کی محفلوں میں نماز جمعہ کےخطبوں میں تبلیغی اجتماعات میں اس کے علاوہ اپنے گھروں میں اپنی بیٹیوں بہوؤں سے اس پر موضوع پر بات کی جاۓ
کیونکہ اس سے اگر کسی ایک مریض کی وقت سے پہلے تشخیص ہوگئی اور اس سے اس کو خودکشی سے روک کر اس کی جان بچا لی گیی تو یقین مانیں یہ ایک انسان نہیں پوری انسانیت پر رحم ہوگا کیوں کہ اللہ رب العالمین تو خود قران کریم میں فرماتا ہے
"جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی" (المائدہ)
اللہ رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ میرے ملک پیارے پاکستان میں کوئی ایک بھی شہری ڈپریشن کا شکار نہ ہو اللہ رب العزت سب پاکستانیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کے لیۓ معاشی اور معاشرتی آسانیاں عطا فرمائے آمین
جب شیخ راغب نے اپنی بیوی نجيہ کو پہلی بار طلاق دی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
…
تو اُس سے کہا:
“اپنے میکے چلی جاؤ!”
نجیہ نے جواب دیا:
“نہ میں میکے جاؤں گی، اور نہ ہی اس گھر سے باہر قدم رکھوں گی جب تک میری جان نہ نکل جائے!”
شیخ نے کہا:
“میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے، اب میری تم سے کوئی حاجت نہیں، میرے گھر سے نکل جاؤ!”
نجیہ نے پرسکون لہجے میں کہا:
“میں نہیں نکلوں گی، اور تمہارے لیے مجھے اس گھر سے نکالنا جائز بھی نہیں، جب تک میری عدّت پوری نہ ہو جائے۔ اور اس دوران میری نان نفقہ کی ذمہ داری بھی تم پر ہے۔”
شیخ نے غصے سے کہا:
“یہ تو گستاخی اور بے ادبی ہے!”
نجیہ نے جواب دیا:
“میں یہ خود سے نہیں کہہ رہی، بلکہ یہ اللّٰه تعالیٰ کا کلام ہے:”
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
ترجمہ: اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت کے وقت پر طلاق دو اور عدّت کا شمار رکھو، اور اللّٰه سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کسی صریح بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللّٰه کی حدود ہیں، اور جو اللّٰه کی حدود سے تجاوز کرے، یقیناً وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرتا ہے
(سورۃ الطلاق: آیت 1)
یہ سن کر شیخ نے غصے سے اپنی عباء جھاڑی، اور ناراضی سے گھر سے نکلتے ہوئے بڑبڑایا:
“اللّٰه کی پناہ، یہ لڑکی تو مصیبت ہے!”
نجیہ نے مسکرا کر جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، خود کو سنبھالا، اور اس کے بعد روزانہ قصدًا …
گھر کو خوشبو سے معطر کرتی،
پورا بناؤ سنگھار کرتی،
عطر لگاتی،
اور جب بھی شیخ گھر آتا یا نکلتا، وہ اس کے سامنے موجود ہوتی۔
پانچ دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ دل ہار بیٹھا…
اور رجوع کر لیا۔
ایک دن نجیہ نے ناشتہ تیار کرنے میں تاخیر کر دی۔
شیخ نے غصے سے کہا:
“یہ میرے حق میں کوتاہی ہے، یہ کسی مومن عورت کے شایانِ شان نہیں!”
نجیہ نے نرمی سے جواب دیا:
“اپنے مومن بھائی کے بارے میں اچھے گمان رکھو، حسنِ ظن بہترین صفات میں سے ہے، اور یہ دل کے سکون اور دین کی سلامتی کا ذریعہ ہے۔ جس نے لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھا، اُس نے ان کے دل جیت لیے!”
شیخ بولا:
“یہ باتیں تمہاری کوتاہی کو جواز نہیں دے سکتیں۔ کیا تمہیں یہ منظور ہے کہ میں بغیر ناشتہ کیے گھر سے نکلوں؟”
نجیہ نے جواب دیا:
“سچے مؤمن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللّٰه کے دیے ہوئے تھوڑے پر بھی قناعت کرے۔”
ایک حدیث ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
ترجمہ: وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اُسے اتنا رزق ملا جو کافی ہو، اور اللّٰه نے اسے جو دیا اُس پر قناعت عطا فرمائی۔
(صحیح مسلم، حدیث: 1054)
شیخ نے کہا:
“تو میں کچھ بھی نہیں کھاؤں گا!”
نجیہ نے مسکرا کر کہا:
“تو پھر تم نے اس حدیث سے کچھ نہیں سیکھا”
شیخ بغیر کچھ کہے غصے میں نکل گیا۔ واپس آیا تو بھی خاموش رہا۔
رات کو اس نے بستر چھوڑ کر نیچے فرش پر سونا شروع کر دیا…
یہ سلسلہ دس دن تک چلتا رہا۔
دن میں نجیہ اُس کے تمام کام کرتی، کھانا بناتی، پانی دیتی، اور رات کو دلکش لباس پہن کر، خوشبو لگا کر اپنے بستر پر لیٹتی…
لیکن اُسے دانستہ طور پر کچھ نہ کہتی۔
گیارہویں رات…
شیخ نیچے سو گیا، پھر تھوڑی دیر بعد اپنے بستر پر چڑھ آیا۔
نجیہ نے ہنستے ہوئے کہا:
“کیوں آئے ہو؟”
شیخ نے کہا:
“آئی ایم سوری! میں پلٹ آیا ہوں”
نجیہ نے کہا:
“کششِ ثقل تو کہتی ہے کہ لوگ اوپر سے نیچے پلٹتے ہیں، تم نیچے سے اوپر کیسے پلٹ آئے؟”
وہ مسکرایا اور کہا:
“کششِ ثقل سے زیادہ طاقتور ایک اور کشش ہے: بستر پر موجود بیوی کی کشش!”
پھر خوشی سے بولا:
“اگر ساری عورتیں تم جیسی ہوتیں نجیہ، تو کوئی مرد کبھی طلاق نہ دیتا۔ گھروں کے سارے مسائل ختم ہو جاتے”
پھر اس نے ایک حدیث بیان کی:
من صبرت على سوء خلق زوجها أعطاها اللّٰه مثل ثواب آسية بنت مزاحم
ترجمہ: جو عورت اپنے شوہر کے بد اخلاقی پر صبر کرے، اللّٰه تعالیٰ اسے حضرت آسیہ بنت مزاحم کے برابر ثواب عطا فرماتا ہے ✳️
شیخ نے محبت سے کہا:
“اے نجیہ! تم میرے لیے اللّٰه کی اطاعت میں بہترین معاون ثابت ہوئیں۔ اللّٰه تمہیں جزائے خیر دے، اور ہمارے درمیان کبھی جدائی نہ ہو!”
……………………
نتیجہ:
ایسے ہی حلم، صبر، حکمت، اور اخلاق سے غصے پر قابو پایا جاتا ہے۔
نجیہ میں جذباتی اور سماجی ذہانت (Emotional & Social Intelligence) کی جھلک تھی۔
جانتے ہو؟ ہر عورت کے اندر ایک “نجیہ” چھپی ہوتی ہے…
ہر وہ عورت جو اپنے رب سے لو لگاتی ہے، وہ “نجیہ” ہے…
جو دنیا کی آزمائشوں سے بچ کر، جنت کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔
اللّٰه تعالیٰ ہمیں بھی ایسے حلم، وفا، صبر، اور دین داری سے نوازے،
اور ہمیں انبیاء و صالحین کے ساتھ جنت الفردوس میں اکٹھا فرمائے۔ آمین۔
— خالد اشعری
✳️: کنزالعمال: 44759، ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے لیکن نصیحت کے طور پر بیان کی جاتی ہے — ا ر ف
__.__
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
۔۔۔
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا،
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں
Tuesday, 29 July 2025
اپنے شریکِ حیات کے ساتھ ناانصافی مت کریں
1️⃣ جب آپ کے سب سے بڑے کلائنٹ کی کال مس ہو جائے تو آپ فوراً واپس کال کرتے ہیں،
لیکن جب آپ کو اپنے شریکِ حیات کی مس کال نظر آئے… تو آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
2️⃣ جب آپ کو دفتر میں نیا باس ملتا ہے، تو آپ اچھا تاثر دینے کے لیے تحفے تک خرید لیتے ہیں،
لیکن یاد کریں… آخری بار کب آپ نے اپنے شریکِ حیات کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی؟
3️⃣ جب آپ کسی صدر، مشہور شخصیت یا سیلبریٹی کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں تو فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں،
لیکن آپ کو اپنے شریکِ حیات کے ساتھ ایک تصویر لگانے میں بھی شرم آتی ہے — جیسے آپ اس سے منسلک ہی نہیں ہونا چاہتے۔
4️⃣ آپ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر دوسرے بچوں کی تعریف کرتے ہیں،
لیکن اپنے بچوں (جو آپ کے شریکِ حیات کے ساتھ ہیں) کے لیے کوئی محبت بھرے الفاظ نہیں رکھتے۔
5️⃣ جب آپ کو کوئی ایوارڈ یا کامیابی ملتی ہے تو آپ شکریہ کے جذبے سے بھر جاتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات آپ کی تعریف کرے، تو آپ نظرانداز کر دیتے ہیں یا مذاق اُڑا دیتے ہیں۔
6️⃣ جب آپ اپنے امام، شیخ یا استاد سے بات کرتے ہیں تو نرمی اور ادب سے پیش آتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات سے بات ہوتی ہے تو آپ کا لہجہ سخت اور چہرہ سپاٹ ہوتا ہے۔
7️⃣ جب کوئی اجنبی بھی اچھے کپڑے پہنے، تو آپ سراحتاً یا آنکھوں سے تعریف کرتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات خوبصورتی سے تیار ہوتا ہے تو آپ خاموش رہتے ہیں۔
8️⃣ جب کسی کلائنٹ سے ملاقات ہو تو آپ اسے کسی بہترین ریسٹورنٹ میں لے جاتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات کو ایک بار بھی کھانے پر لے جانا گوارا نہیں کرتے۔
9️⃣ جب دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو سیاستدان، اداکار، گلوکار، کھلاڑیوں کی تعریف کرتے ہیں جو آپ کو جانتے بھی نہیں،
لیکن شریکِ حیات کی، جو ہر دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ ہے، ایک تعریف بھی نہیں کرتے۔
🔟 جب کوئی مشہور شخصیت آپ سے ملنا چاہے تو آپ سب کام چھوڑ کر وقت کام پہنچ جاتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات کو آپ کا وقت مانگنے کے لیے بار بار کہنا پڑتا ہے۔
1️⃣1️⃣ جب دفتر میں رائے مانگی جائے تو آپ بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات مشورہ مانگے تو آپ بے دلی سے یا بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔
1️⃣2️⃣ جب دوست یا محفل میں کسی کو رقم دینی ہو تو آپ کھلے دل سے دیتے ہیں،
لیکن جب شریکِ حیات یا بچہ کچھ مانگے تو آپ بہانے، انکار اور حساب کتاب پر آ جاتے ہیں۔
1️⃣3️⃣ دفتر میں آپ ٹیم ورک دکھاتے ہیں کیونکہ کمپنی کی ترقی چاہتے ہیں،
لیکن شادی میں نہ ٹیم ورک ہے نہ محبت کی پرورش۔
1️⃣4️⃣ جب آپ آفیشل ای میل لکھتے ہیں تو ’’مہربانی فرما کر‘‘، ’’براہِ کرم‘‘، ’’اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے‘‘ جیسے مہذب الفاظ استعمال کرتے ہیں،
لیکن شریکِ حیات سے بات ہو تو لہجہ سخت، الفاظ خشک اور رویہ حکم دینے والا ہوتا ہے۔
---
❓ کیوں؟
ہم اُس انسان کے ساتھ بے رحمی کیوں کرتے ہیں
جسے ہم نے اپنا ہمسفر چنا؟
جس کے ساتھ زندگی گزارنے کا وعدہ کیا؟
جو ہمیں روز اپنا سب کچھ دیتا ہے؟
🌸 اب وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں
اور اپنے شریکِ حیات کو وہ محبت، عزت اور توجہ دیں
جس کے وہ حقیقتاً حقدار ہیں۔
Subscribe to:
Comments (Atom)





